اسرائیل نے مشرقی یروشلم کے کارکنان کو گرفتار کر لیا
7 جون 2021اسرائیلی پولیس نے چھ جون اتوارکے روز حقوق انسانی کے ان دو سرکردہ کارکنوں کو حراست میں لے لیا جو مقبوضہ مشرقی یروشلم کے شیخ جراح اور اس کے آس پاس کے علاقوں سے فلسطینی خاندانوں کے جبری انخلا کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلاتے رہے ہیں۔
پولیس حکام نے 23 سالہ مونا الکرد کو ان کے گھر سے گرفتار کیا جو شیخ جراح علاقے میں ہی واقع ہے۔ شہر کا یہی وہ حصہ ہے جہاں حالیہ ہفتوں میں فلسطینی خاندانوں کو ان کو اپنے گھروں سے دربدر کرنے کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔
پولیس حکام پہلے مونا کو ان کے گھر سے ہتھکڑی پہنا کر اپنے ساتھ لے گئی تاہم ان کی گرفتاری کے وقت وہاں جمع مقامی لوگوں اور پولیس میں مختصر سی جھڑپ بھی ہوئیں۔ پولیس تھانے لے جانے کے چند گھنٹوں بعد مونا کو رہا کر دیا گیا۔
پولیس نے مونا کو گرفتار کرنے کے ساتھ ہی ان کے جڑواں بھائی محمد الکرد کو بھی سمّن جاری کیا جو بعد میں خود یروشلم کے پولیس اسٹیشن پر حاضر ہوئے اور بھی پولیس کی حراست میں ہیں۔
شیخ جراح کے علاقے میں صدیوں سے آباد کم سے آٹھ فلسطینی خاندانوں کو وہاں سے اس لیے نکالا جا رہا ہے تاکہ اس علاقے میں یہودیوں کی باز آبادکاری لیے نئے مکانات تعمیر کیے جا سکیں۔ اس سلسلے میں اسرائیل کی سپریم کورٹ میں ایک کیس بھی چل رہا ہے اور یہ خاندان اسی فیصلے کے انتظار میں ہیں۔ اگر عدالت نے بھی اسرائیلی حکومت کے موقف کو تسلیم کر لیا تو پھر ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
احتجاج کو خاموش کرانے کی کوشش
اس انخلا کے خلاف شیخ جراح کے جڑواں بھائی بہن مونا اور محمد الکرد سوشل میڈیا پر مہم چلاتے رہے ہیں جن کے والد نبی الکرد کا کہنا تھا کہ پولیس، ''بڑی تعداد میں بڑے ظالمانہ انداز میں گھر میں داخل ہوئی۔ گرفتاری کی یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ہم اپنے گھروں کو نہیں
چھوڑیں گے اور وہ نہیں چاہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی اپنی رائے کا اظہار کر سکے۔ وہ نہیں چاہتے کہ اس بارے میں کوئی بھی سچ بات کہے۔ وہ ہمیں خاموش کرانا چاہتے ہیں۔''
اسرائیل پولیس نے بغیر نام لیے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 23 سالہ ایک شخص کو فسادات میں شرکت کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ الکرد جڑواں بھائی بہن کا مکان بھی اسی فہرست میں شامل ہے جنہیں جبری خالی کرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ دونوں اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور سوشل میڈیا مہم کی قیادت کرتے رہے ہیں۔
مونا کو اس وقت کافی شہرت ملی تھی جب ان کا ایک ویڈیو وائرل ہو گیا، جس میں نوآباد یہودیوں کو چیلنج کر رہی ہیں۔ شیخ جراح سے اسی جبری انخلا کی وجہ سے ہی اس قدیم شہر میں گزشتہ کئی ہفتوں سے بے چینی اور افراتفری کا ماحول ہے جو مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں سبھی کے لیے مقدس مقام ہے۔ گزشتہ ماہ اسی تنازعے کی وجہ سے حماس اور اسرائیل کے درمیان لڑائی چھڑ گئی تھی۔ اسرائیل کی گیارہ دن کی بمباری میں درجنوں بچوں اور خواتین سمیت تقریباً ڈھائی سو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
الجزیرہ صحافی کی گرفتاری اور میڈیا کی مذمت
اسرائیل کی پولیس نے سنیچر کے روز معروف میڈیا ادارے الجزیرہ سے وابستہ سینیئر صحافی جیوارا بودیری کو گرفتار کر لیا تھا اور پھر کئی گھنٹوں تک حراست میں رکھنے کے بعد انہیں رہا کر دیا۔ ان کی گرفتاری سے متعلق جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوئیں اس میں ان پر پولیس کو حملہ کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
انہوں نے پریس کی وردی بھی پہن رکھی تھی تاہم پولیس کو انہیں گھسیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس واقعے میں ان کا ایک ہاتھ ٹوٹ گیا اور جسم پر بھی کئی زخم آئے جس کے لیے انہیں اسپتال میں بھی بھرتی کرانا پڑا۔
اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ ان سے شناخت کے بارے میں پوچھا گیا تھا تاہم انہوں نے جب اس سے انکار کیا تو انہیں گرفتار کیا گیا۔ تاہم پریس کی آزادی کے عالمی ادارے 'انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ' کی ڈائریکٹر باربرا ترینوفی نے اسرائیلی پولیس کی اس کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''اسرائیلی فورسز کی جانب سے آزادی صحافت اور صحافیوں کی حفاظت کی یہ تازہ ترین خلاف ورزی ہے۔ گزشتہ ہفتوں میں ہم نے صحافیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور میڈیا کے خلاف ہونے والے بہت سے حملوں کا مشاہدہ کیا تھا جو اسرائیل کی طرف جاری آزادانہ کوریج کو دبانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ بہت ہی تشویش ناک بات ہے جو بین الاقوامی معاہدوں کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔''
دوسری میڈیا تنظیم 'رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز' کی ترجمان سبرینا بینوئی نے بودیری کی گرفتاری کو، ''میڈیا کی آزادی کی واضح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔'' ان کا کہنا تھا، ''اس صحافی کو تو واضح طور پر پہچانا جا سکتا تھا کیونکہ اس نے پریس کی وردی پہن رکھی تھی، اور یہ تو اسرائیلی حکام کا ایک کھلا عزم ہے کہ وہ صحافیوں کو کام کرنے سے باز رکھیں تاکہ زمینی حقائق کو کسی بھی طرح سے روکا جا سکے۔''
ص ز/ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)