1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

سینکڑوں فلسطینی فرد جرم کے بغیر زیر حراست، اسرائیلی تنظیم

3 مئی 2022

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حساس انٹیلیجنس معلومات ظاہر کیے بغیر مسلح حملوں کو ناکام بنانے کے لیے ’انتظامی حراست‘ کا سہارا لیتا ہے مگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسرائیل میں یہ نظام بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوتا ہے۔

Israel | Zusammenstöße auf dem Tempelberg in Jerusalem
تصویر: Ahmad Gharabli/AFP/Getty Images

اسرائیل میں سرگرم انسانی حقوق کے تحفظ کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ فی الوقت اسرائیل نے تقریباً 600 فلسطینیوں کو بغیر کسی باقاعدہ الزام یا ان کے خلاف کسی مقدمے کی کارروائی کے حراست میں لے رکھا ہے۔ اس گروپ کے مطابق سن 2016 کے بعد سے یوں حراست میں رکھے گئے فلسطینیوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔

اسرائیل کا سرکردہ ہیومن رائٹس گروپ ’ہاموکڈ‘ باقاعدگی سے جیل حکام سے معلومات لے کر اعداد و شمار جمع کرتا ہے اور اسی نے دو مئی پیر کے روز بتایا کہ اس وقت 604 قیدی نام نہاد ’انتظامی حراست‘ میں ہیں۔ اس تنظیم کے مطابق چونکہ انتظامی حراست کو یہودیوں کے خلاف بہت کم استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے یہ تقریباً سبھی قیدی فلسطینی ہیں۔

’انتظامی وجوہات کی بنا پر زیر حراست افراد‘ کہلانے والے ایسے قیدیوں کو ’خفیہ شواہد‘ کی بنیاد پر گرفتار کیا جاتا ہے اور وہ اپنے خلاف الزامات تک سے بے خبر ہوتے ہیں۔ انہیں عدالت میں اپنا دفاع کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ عام طور پر ایسے قیدیوں کو چھ ماہ تک کی قابل تجدید مدت کے لیے حراست میں رکھا جاتا ہے۔ یوں اس مدت میں بار بار کی جانے والی توسیع کے باعث وہ مجموعی طور پر برسوں جیلوں میں رہتے ہیں۔

دوسری طرف اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا یہ طریقہ کار شواہد جمع کرتے رہنے کے ساتھ ساتھ حکام کو مشتبہ افراد کو اپنی حراست میں رکھنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ تاہم اس قانون کے ناقدین اور انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اس نظام کے تحت بڑے پیمانے پر زیادتیاں کی جاتی ہیں اور اس دوران مناسب طریقہ کار کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔

ہاموکڈ نے بتایا کہ اس وقت 2,441 فلسطینی اسرائیلی فوجی عدالتوں کی طرف سے قصور وار قرار دیے جانے کے بعد اپنی سزائیں کاٹ رہے ہیں جبکہ مزید 1,478 افراد پوچھ گچھ کے لیے زیر حراست ہیں۔ ان میں سے بہت سے قیدیوں پر یا تو فرد جرم عائد کی جا چکی ہے اور وہ اپنے خلاف مقدمات کی سماعت کے منتظر ہیں، یا پھر ان کے خلاف عدالتی کارروائی جاری ہے۔

اسرائیلی فوج سے جب ان تازہ ترین اعداد و شمار سے متعلق سوال کیا گيا، تو اس نے اس پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا کوئی فوری جواب نہ دیا۔

تصویر: Mohamad Torokman/REUTERS

’ایسی حراست کا کوئی جواز نہیں‘

آخری بار اسرائیل نے اتنے زیادہ انتظامی قیدیوں کو اکتوبر 2016 میں اس وقت جیل میں رکھا تھا جب اسرائیل کی قائم کردہ غیر قانونی یہودی بستیوں میں توسیع کے منصوبے کے دوران حملوں میں زبردست اضافہ ہو گیا تھا۔

تاہم ہاموکڈ کی ڈائریکٹر جیسیکا مونٹیل کہتی ہیں کہ اس طرح کے حملوں کے باجود سینکڑوں انسانوں کو مہینوں یا سالوں تک بغیر کسی باقاعدہ فرد جرم کے حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

مونٹیل کا کہنا ہے، ’’یہ انتظامی حراست ایک اسمبلی لائن کی طرح ہے۔ یہ اس حد سے بہت زیادہ ہے، جسے بین الاقوامی قانون کے تحت جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانون صرف غیر معمولی حالات میں اور وہ بھی محدود مدت کے لیے ایسے احتیاطی اقدامات کی اجازت دیتا ہے۔

جیل میں بھوک ہڑتال اور عدالتوں کا بائیکاٹ 

انتظامی حراست کی وجہ سے اسرائیلی جیلوں میں بند بہت سے فلسطینی قیدیوں نے احتجاج کے طور پر طویل مدت سے بھوک ہڑتال بھی شروع کر رکھی ہے، جس سے ان کے لیے صحت کے پیچیدہ مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں اور ان کی زندگیوں کو بھی خطرہ ہے۔

ایسے زیر حراست افراد میں سے بہت سے قیدیوں اور ان کے وکلاء نے احتجاجاﹰ رواں برس کے آغاز سے ہی اسرائیلی فوجی عدالتوں کی کارروائیوں کا بائیکاٹ بھی کر رکھا ہے۔ انسانی حقوق کی ایک اور اسرائیلی تنظیم ’بیت سیلَم‘ کے مطابق اب اسرائیلی عدالتیں ایسے افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت ملزمان اور ان کے وکلاء کے بغیر ہی کر رہی ہیں۔

اسرائیل کا تاہم کہنا ہے کہ انتظامی حراست سے متعلق تمام احکامات عدالت میں نظر ثانی سے مشروط ہیں۔

ایسے زیر حراست افراد اپنےبارے میں فوجی اپیل کورٹ یا پھر اسرائیلی سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کر سکتے ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ فوجی عدالتیں بیشتر واقعات میں مقدمات سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ہی کے حوالے کر دیتی ہیں۔

ص ز / م م (اے ایف پی، اے پی)

فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان یروشلم میں جھڑپیں

03:01

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں