ڈینی تِرزا کی کمپنی ایسے باڈی کیمرے بنا رہی ہے، جس کی مدد سے چہرے کی شناخت کی خاطر ایک ڈیٹا بیس بنانا ممکن ہو جائے گا، اور کسی بھی شخص کی پہچان انتہائی آسان ہو جائے گی۔ تاہم یہ ایک متنازعہ ٹیکنالوجی ہے۔
اشتہار
سابق اسرائیلی کرنل ڈینی تِرزا کا کہنا ہے کہ ان کی یوزموٹ لمیٹڈ نامی کمپنی ایسے باڈی کیمرے تیار کر رہی ہے، جس کی مدد سے پولیس ہجوم بھی مشتبہ افراد کو فوراﹰ پہچان سکے گی، ''چاہے کسی شخص نے چہرے پر ماسک بھی پہنا ہو۔‘‘ عمومی طور پر ایسے کیمروں کا استعمال پولیس اہلکار کرتے ہیں۔ یہ کیمرے ان کی وردی پر لگے ہوتے ہیں، جو کسی بھی ملزم کی گرفتاری کے عمل کو ریکارڈ کرتے ہیں تاکہ بعد ازاں اس ویڈیو کی مدد سے شواہد کو پرکھا بھی جا سکے۔
پیگاسس، کیسے جاسوسی کرتا ہے؟
04:13
سکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے فیشل ریکگنیشن یعنی چہرے کی شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی کے استعمال پر عالمی سطح پر تنقید کی جاتی ہے۔ امریکی ٹیکنیکل کمپنیاں پولیس کو یہ ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے ہچکچاتی ہیں کیونکہ اس سے پرائیوسی یا نجی معلومات کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ تاہم تِرزا کی طرح دیگر افراد اس ٹیکنالوجی کی مدد سے جرائم پیشہ اور لاپتہ افراد کا سوراغ لگانے کی صلاحیت پر زور دیتے ہیں، ''اس سے پولیس کو بروقت معلوم ہو جائے گا وہ کس کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘
چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کی صنعت
مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادی میں رہنے والے تریسٹھ سالہ تِرزا نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ وہ بہت جلد تل ابیب میں واقع 'کورسائٹ اے آئی‘ نامی کمپنی کی ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ یہ باڈی کیمرے استعمال کیے جا سکیں گے۔ ان کیمروں کی مدد سے ہجوم میں بھی مطلوبہ لوگوں کی شناخت کی جاسکتی ہے، چاہے کسی نے ماسک پہنا ہو، یا پھر چہرے پر میک اپ کیا ہو۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کئی دہائیوں پرانی تصویر سے بھی انسانوں کی شناخت کی جاسکتی ہے۔
تِرزا کا کہنا ہے کہ ابھی تک ان کی کمپنی یوزموٹ اور کورسائٹ کے درمیان شراکت داری کا کوئی معاہدہ طے نہیں ہوا سکا ہے۔
کورسائٹ کے سی ای او راب واٹس نے کسی قسم کی تفصیلات یا معاہدے کی تصدیق کیے بغیر بتایا کہ ان کی کمپنی دنیا بھر میں ایسے دو سو تیس 'گروپس‘ کے ساتھ کام کر رہی ہے جنہوں نے فیشل ریکگنیشن کا سافٹ ویئر کیمروں میں شامل کروایا ہے۔
واٹ کے مطابق اس ٹیکنالوجی کے ذریعے مختلف کام لیے جاسکتے ہیں، جیسے کہ گاہکوں کا ڈیٹا بیس تیار کرنا، کمپنی کے کون سے ملازمین دفتر کی عمارت میں داخل ہوسکتے ہیں، یا پھر اسٹیڈیم میں ٹکٹ کے ساتھ ہی لوگ داخل ہونا، اور پولیس کے لیے مشتبہ اور مفرور افراد کی تلاش۔ انہوں نے بتایا کہ آسٹریلوی اور برطانوی پولیس پہلے ہی اس ٹیکنالوجی کے آزمائشی نمونے پر کام کر رہی ہیں۔
مارکٹ ریسرچ کمپنی مورڈور انٹیلیجینس کے تخمینے کے مطابق چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کی صنعت کی مالیت سن 2020 میں تقریبا تین اعشاریہ سات ارب ڈالر تھی، جو کہ سن 2026 تک گیارہ اعشاریہ چھ ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
فیشیل ریکگنیشن کے استعمال پر تنقید
فیس بک، مائیکروسافٹ، ایمیزون، اور آئی بی ایم نے پہلے ہی سکیورٹی اداروں کو فیشل ریکگنیشن کے پروگرام فروخت کرنے پر عارضی یا مستقل پابندی عائد کر رکھی ہے۔
پیگاسس جاسوسی کا معاملہ، سیاسی ہنگامہ خیزی کا سبب
03:25
This browser does not support the video element.
فرانس نے گزشتہ ماہ 'کلیئر ویو اے آئی‘ نامی امریکی کمپنی کو اپنے شہریوں سے منسلک ڈیٹا کو حذف کرنے کا حکم دیا۔ فرانسیسی اداروں کے مطابق انٹرنیٹ سے جمع کی گئی تصاویر کی مدد سے چہروں کی شناخت کا ڈیٹا تیار کرنا پرائیویسی کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اس کے جواب میں راب واٹس کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی انسانی حقوق اور اخلاقیات کے بنا پر چین، روس یا پھر میانمار کو یہ ٹیکنالوجی نہیں فروخت کرے گی۔ ''ہم فیشنل ریکگنیشن کو ایک مثبت قوت کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
اشتہار
جاسوسی کے اسرائیلی سافٹ ویئر
اسرائیل میں تیار کی جانے والی نگرانی کی ٹیکنالوجی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اسرائیل کی ملٹری انٹیلیجینس کے سابق افسران نے این ایس او گروپ قائم کیا تھا۔ اسی گروپ نے پیگاسس اسپائی ویئر بنایا جس سے موبائل فون کی جاسوسی کی جاسکتی ہے۔ امریکی حکام نے نومبر میں این ایسو کو بلیک لسٹ کردیا تھا۔ ایپل اور فیس بک نے اس کمپنی کے خلاف اس وقت ہرجانے کا مقدمہ کردیا، جب اس اسپائی ویئر کا صحافیوں اور ناقدین کے موبائل فون میں انکشاف ہوا۔
اسرائیل فلسطین تنازعہ، دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک
اسرائیل اور فلسطین حالیہ تاریخ کے بدترین تنازعہ میں گھرے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی پر فضائی بمباری اور حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل میں راکٹ داغنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک نظر اس تنازعہ پر
تصویر: Fatima Shbair/Getty Images
اسرائیل پر راکٹ داغے گئے
دس مئی کو حماس کی جانب سے مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اسرائیل پر راکٹ داغے گئے۔ اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائی میں غزہ پر بھاری بمباری کی گئی۔ تشدد کا یہ سلسلہ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں اور اسرائیلی سکیورٹی فروسزکے درمیان تصادم کے بعد شروع ہوا۔
تصویر: Fatima Shbair/Getty Images
تل ابیب میں راکٹ داغے گئے
گیارہ مئی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مرکز میں بمباری کی گئی جوابی کارروائی کرتے ہوئے حماس کی جانب سے تل ابیب میں راکٹ داغے گئے۔
تصویر: Cohen-Magen/AFP
فرقہ وارانہ تشدد
اگلے روز اسرائیل میں فلسطینی اور یہودی آبادیوں میں تناؤ اور کشیدگی کی رپورٹیں آنا شروع ہوئی۔ اور فرقہ وارانہ تشدد کے باعث ایک اسرائیلی شہری ہلاک ہوگیا۔ پولیس کی جانب سے تل ابیب کے ایک قریبی علاقے میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ پولیس نے چار سو سے زائد عرب اور یہودی افراد کو حراست میں لے لیا۔
تصویر: Cohen-Magen/AFP
ہنگامی اجلاس
بارہ مئی کو روس کی جانب سے یورپی یونین، امریکا اور اقوم متحدہ کے اراکین کے ساتھ اس بگڑتی صورتحال پر ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔
تصویر: Ahmad gharabli/AFP
جنگی گاڑیاں اور فوجی تعینات
تیرہ مئی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کی سرحد کے پاس جنگی گاڑیاں اور فوجی تعینات کر دیے گئے۔ اگلے روز اسرائیل کے زیر انتظام مغربی کنارے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپوں میں گیارہ افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: Mussa Qawasma/REUTERS
مہاجرین کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری
پندرہ مئی کو غزہ میں قائم مہاجرین کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری سے ایک ہی خاندان کے دس افراد ہلاک ہو گئے۔ کچھ ہی گھنٹوں پر اسرائیلی نے بمباری کرتے ہوہے ایک ایسی عمارت کو مسمار کر دیا گیا جس میں صحافتی ادارے الجزیرہ اور اے پی کے دفاتر تھے۔ اس عمارت میں کئی خاندان بھی رہائش پذیر تھے۔ بمباری سے ایک گھنٹہ قبل اسرائیل نے عمارت میں موجود افراد کو خبردار کر دیا تھا۔
تصویر: Mohammed Salem/REUTERS
حماس کے رہنماؤں کے گھروں پر بمباری
اگلے روز اسرائیل کی جانب سے حماس کے مختلف رہنماؤں کے گھروں پر بمباری کی گئی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں بیالیس فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے سکریڑی جنرل کی جانب سے اس تنازعہ کو فوری طور پر ختم کیے جانے کی اپیل کی گئی۔
تصویر: Mahmud Hams/AFP
'اسلامک اسٹیٹ' کا ایک کمانڈر ہلاک
سترہ مئی کو دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ' کی جانب سے کہا گیا کہ اسرائیلی بمباری میں ان کا ایک کمانڈر ہلاک ہو گیا ہے۔ دوسری جانب اقرام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکا کی جانب سے تیسری مرتبہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ پر اس مشترکہ بیان کو روک دیا گیا جس میں تشدد کے خاتمے اور شہریوں کو تحفظ پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تصویر: Said Khatib/AFP
دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک
اس حالیہ تنازعہ میں اب تک دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے قریب ساٹھ بچے ہیں۔ تیرہ سو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
تصویر: Ahmad Gharabli/AFP/Getty Images
تین ہزار سے زائد راکٹ فائر کئے گئے
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے تین ہزار سے زائد راکٹ فائر کئے گئے ہیں جن کے باعث ایک بچے سمیت دس اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔
ب ج، ا ا (اے ایف پی)
تصویر: Amir Cohen/REUTERS
10 تصاویر1 | 10
این ایس او کا کہنا ہے پیگسس اسرائیلی وزارت دفاع کے برآمدی قوانین پر پورا اترتا ہے۔
فلسطینیوں کے چہروں کا ڈیٹا بیس
چہرے کی شناخت کے اسرائیلی سافٹ ویئر پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں سابق اسرائیلی فوجیوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے فیشل ریکگنیشن کے لیے ڈیٹا بیس تیار کرنے کے مقصد سے مغربی کنارے کے شہر الخلیل یا ہیبرون میں ہزاروں فلسطینیوں کی تصاویر کھینچی تھیں۔
اسی طرح سال 2020 میں، مائیکروسافٹ نے چہرے کی شناخت کرنے والی اسرائیلی کمپنی AnyVision سے علیحدگی اختیار کر لی، کیونکہ یہ کمپنی فلسطینیوں کی نگرانی میں مبینہ طور پر شامل تھی۔ اسی کمپنی کا نام اب Oosto رکھا گیا ہے اور یہ اسرائیلی سکیورٹی ایجنسیز اور نجی کمپنیوں کے ساتھ دنیا بھر میں کام کرتی ہے۔
فلسطینی ڈیجیٹل رائٹس کے سرگرم کارکن ندیم ناشف کہتے ہیں کہ چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کے استعمال نے فلسطینیوں پر اسرائیل کے ’’کنٹرول‘‘ کو مضبوط کیا اور عوامی مقامات پر گرفت میں مزید اضافہ کیا۔ لیکن تِرزا چیک پوائنٹس پر اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کے بقول، ''اس کا اہم مقصد فوجیوں اور شہریوں کے درمیان تصادم کو کم کرنا ہے۔‘‘
ع آ / ع ب (اے ایف پی)
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا۔ اس بات کو سات دہائیوں سے زائد وقت گزر چکا ہے مگر اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ ممالک کون سے ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kahana
1. افغانستان
افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ سن 2005 میں اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر الگ فلسطینی ریاست بننے کا عمل شروع ہو جائے تو اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2. الجزائر
عرب لیگ کے رکن شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک الجزائر اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا اس لیے دونوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ الجزائر سن 1962 میں آزاد ہوا اور اسرائیل نے اسے فوری طور پر تسلیم کر لیا، لیکن الجزائر نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر الجزائر کا سفر ممکن نہیں۔ سن 1967 کی جنگ میں الجزائر نے اپنے مگ 21 طیارے اور فوجی مصر کی مدد کے لیے بھیجے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/A. Widak
3. انڈونیشیا
انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی، سیاحتی اور سکیورٹی امور کے حوالے سے تعلقات موجود ہیں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے سربراہان باہمی دورے بھی کر چکے ہیں۔ سن 2012 میں انڈونیشیا نے اسرائیل میں قونصل خانہ کھولنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rante
4. ايران
اسرائیل کے قیام کے وقت ایران ترکی کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ تاہم سن 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ ایران اسرائیل کو اب تسلیم نہیں کرتا اور مشرق وسطیٰ میں یہ دونوں ممالک بدترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔
تصویر: khamenei.ir
5. برونائی
برونائی کا شمار بھی ان قریب دو درجن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے باہمی سفارتی تعلقات ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Rani
6. بنگلہ دیش
بنگلہ دیش نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی تب تک ڈھاکہ حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کی حمایت کی تھی اور اس کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں اسرائیل کا شمار بھی ہوتا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
7. بھوٹان
بھوٹان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ بھوٹان کے خارجہ تعلقات بطور ملک بھی کافی محدود ہیں اور وہ چین اور اسرائیل سمیت ان تمام ممالک کو تسلیم نہیں کرتا جو اقوام متحدہ کے رکن نہیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
8. پاکستان
پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اسرائیل کے خلاف عسکری مدد روانہ کی تھی اور اسرائیل نے مبینہ طور پر پاکستانی جوہری منصوبہ روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ پاکستان نے بھی دو ریاستی حل تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
9. جبوتی
جمہوریہ جبوتی عرب لیگ کا حصہ ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم 50 برس قبل دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔
تصویر: DW/G.T. Haile-Giorgis
10. سعودی عرب
سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ نہ تو باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی اب تک اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تاہم دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری دکھائی دی ہے۔ سعودی شاہ عبداللہ نے سن 2002 میں ایک ہمہ جہت امن منصوبہ تجویز کیا لیکن تب اسرائیل نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ سعودی عرب نے اسرائیل اور یو اے ای کے تازہ معاہدے کی حمایت یا مخالفت میں اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
ہمسایہ ممالک اسرائیل اور شام عملی طور پر اسرائیل کے قیام سے اب تک مسلسل حالت جنگ میں ہیں اور سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو پائے۔ دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ علاوہ ازیں شام کے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔ اسرائیل خود کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے شام میں کئی ٹھکانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔
شمالی کوریا نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس شمالی کوریا نے سن 1988 میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
13. صومالیہ
افریقی ملک صومایہ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی دونوں کے باہمی سفارتی تعلقات وجود رکھتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Chiba
14. عراق
عراق نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ہی عراق نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ عراقی کردوں نے تاہم اپنی علاقائی حکومت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
تصویر: DW
15. عمان
عرب لیگ کے دیگر ممالک کی طرح عمان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تاہم سن 1994 میں دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کیے تھے جو سن 2000 تک برقرار رہے۔ دو برس قبل نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل وفد نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ عمان نے اماراتی اسرائیلی معاہدے کی بھی حمایت کی ہے۔ اسرائیلی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ عمان بھی جلد ہی اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
16. قطر
قطر اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر قطر کا سفر نہیں کیا جا سکتا لیکن سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے اسرائیلی شہری بھی قطر جا سکیں گے۔ اماراتی فیصلے کے بارے میں قطر نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
17. کوموروس
بحر ہند میں چھوٹا سا افریقی ملک جزر القمر نے بھی ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ عرب لیگ کے رکن اس ملک کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
18. کویت
کویت نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی امن معاہدے کے بارے میں کویت نے دیگر خلیجی ریاستوں کے برعکس ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Gambrell
19. لبنان
اسرائیل کے پڑوسی ملک لبنان بھی اسے تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین مسلسل جھڑپوں کے باعث اسرائیل لبنان کو دشمن ملک سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے سن 1982 اور سن 2005 میں بھی لبنان پر حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. A. Akman
20. لیبیا
لیبیا اور اسرائیل کے مابین بھی اب تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔
21. ملائیشیا
ملائیشیا نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں ملائیشیا میں نہ تو اسرائیلی سفری دستاویزت کارآمد ہیں اور نہ ہی ملائیشین پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات قائم ہیں۔
تصویر: Imago/Zumapress
22. یمن
یمن نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور یمن میں اسرائیلی پاسپورٹ پر، یا کسی ایسے پاسپورٹ پر جس پر اسرائیلی ویزا لگا ہو، سفر نہیں کیا جا سکتا۔