1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

اسرائیل کا خان یونس سے مزید فلسطینیوں کو انخلا کا حکم

11 اگست 2024

اسرائیلی فوج کا تازہ حکم وسطی غزہ میں ایک اسکول پر حملے میں کم از کم 80 افراد کی ہلاکت کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے اس حملے میں حماس اور اسلامی جہاد کے کم از کم 19 جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

اسرائیلی فوج گزشتہ دس ماہ سے جاری جنگ کے دوران بارہا بڑے پیمانے پر غزہ کے مختلف علاقوں کے رہائشیوں کو انخلاء کا حکم  دیتی آئی ہے
اسرائیلی فوج گزشتہ دس ماہ سے جاری جنگ کے دوران بارہا بڑے پیمانے پر غزہ کے مختلف علاقوں کے رہائشیوں کو انخلاء کا حکم  دیتی آئی ہےتصویر: Rizek Abdeljawad/Xinhua/IMAGO

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے حکام کے مطابق اسرائیلی فوج نے آج  اتوار کو علی الصبح جنوبی غزہ میں خان یونس سے مزید فلسطینیوں کو فوری طور پر علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا یہ حکم ہفتے کو وسطی غزہ میں ایک اسکول میں قائم ایک عارضی پناہ گاہ پرفضائی حملے میں کم از کم 80 فلسطینیوں کی ہلاکت اور 50 کے زخمی ہونے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اس نے تبین نامی اسکول کی عمارت میں قائم عسکریت پسند تنظیم حماس کی ایک کمانڈ پوسٹ کو نشانہ بنایا تھا، جس میں کم از کم 19 جنگجو مارے گئے۔

اسرائیلی فوج گزشتہ دس ماہ سے جاری جنگ کے دوران بارہا بڑے پیمانے پر غزہ کے مختلف علاقوں کے رہائشیوں کو انخلاء کا حکم  دیتی آئی ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے ان  علاقوں کو پہلے حماس سے خالی کرا لیا گیا تھا لیکن اب اس کےجنگجو وہاں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔

سرائیلی فوج کے ہفتے کو وسطی غزہ میں ایک اسکول میں قائم ایک عارضی پناہ گاہ پر فضائی حملے میں کم از کم 80 فلسطینی ہلاک اور 50 زخمی ہو گئے تھے تصویر: AP Photo/picture alliance

’کوئی جگہ محفوظ نہیں‘

غزہ کی 2.3 ملین کی آبادی کی اکثریت اس جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو چکی ہے، اور اس میں سے بھی زیادہ تر  کو  کئی بار بے گھر ہونا پڑا ہے۔ لاکھوں شہری عارضی خیموں اور اس طرح کے اسکولوں کی عمارتوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جیسے اسکول کو ہفتے کے روز اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ ان فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی محصور ساحلی پٹی میں کہیں بھی خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔

اسرائیل فوج کی جانب سے انخلا کے تازہ ترین احکامات خان یونس کے جن علاقوں پر لاگو ہوتے ہیں، ان میں اسرائیل کے انسانی ہمدری کی بنیادوں پر اعلان کردہ 'محفوظ علاقے‘  بھی شامل ہیں۔ اسرئیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس  علاقے سے راکٹ فائر کیے گئے تھے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس اور دیگر تنظیموں کے عسکریت پسند عام شہریوں کے درمیان چھپے ہوئے ہیں اور رہائشی علاقوں سے حملے کر رہے ہیں۔ غزہ کا دوسرا سب سے بڑا شہر خان یونس اس سال کے شروع میں ایک بڑے اور طویل فضائی اور زمینی حملے کے دوران بڑے پیمانے پر تباہی کا شکار ہوا تھا۔

پچھلے ہفتے اس شہر سے اسرئیلی فوج کی جانب سے انخلا کے پہلے حکم کے بعد دسیوں ہزار افراد کو دوبارہ اپنے علاقے خالی کر کے بھاگنا پڑا۔ پناہ کی تلاش میں وہاں سے بھاگنے والی تین بچوں کی بیوہ ماں امل ابو یحییٰ نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ اب کہاں جانا ہے۔ اس 42 سالہ خاتون کا  شوہر مارچ میں ان کے پڑوسیوں کے گھر پر اسرائیلی فضائی حملے میں مارا گیا تھا۔ امل جون میں اپنے بری طرح تباہ شدہ گھر واپس لوٹی تھیں لیکن اب ایک بار پھر جان بچانے کے لیے انہیں بھاگنا پڑا۔ انہوں نے کہا، ''یہ میری چوتھی نقل مکانی ہے۔‘‘

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر سے جاری غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 40,000 کے قریب پہنچ  چکی ہےتصویر: Omar Ashtawy/APAimages/IMAGO

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر سے جاری غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 40,000 کے قریب پہنچ  چکی ہے۔ امدادی گروپ علاقے میں خوفناک انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جب کہ بین الاقوامی ماہرین نے وہاں قحط سے بھی خبردار کیا ہے۔ اس جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو اس وقت ہوا تھا۔ جب حماس کے جنوبی اسرائیل کے سرحدی علاقوں پر حملے میں تقریباً 1,200 افراد مارے گئے تھے، جن میں زیادہ سے تر عام شہری تھے۔ تب حماس کے جنگجو واپسی پر تقریباً 250 افراد کو اغوا کر کے اپنے ہمراہ غزہ بھی لے گئے تھے۔

ش ر⁄ ر ب، م م (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)

غزہ پٹی میں امدادی سامان پہنچانا مشکل کیوں؟

01:48

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں