شامی حکومت نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے دارالحکومت دمشق کے قریب واقع ایک فوجی تنصیب پر میزائل فائر کیے ہیں۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بھی اس کارروائی کی تصدیق کر دی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے شام کی سرکاری نیوز ایجنسی SANA کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل نے دمشق کے نواح میں واقع ایک فوجی اڈے کو میزائل حملوں سے نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔
بتایا گیا ہے کہ یہ عسکری کارروائی جمعہ یکم دسمبر اور ہفتے کی درمیانی رات کی گئی۔ تاہم شامی فضائی دفاعی نظام نے زمین سے زمین پر مار کرنے والے دو میزائلوں کو ہوا میں ہی تباہ کر دیا۔ اسرائیلی حکومت نے اس حملے کے بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے۔ ایسا بہت ہی کم ہوا ہے کہ اسرائیل نے شام میں کیے گئے کسی عسکری حملے کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیا ہو۔
شامی میڈیا کے مطابق دو میزائلوں کو ہوا میں ہی تباہ کر دینے کے باعث نقصان کم ہوا ہے۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ ان حملوں کا نشانہ دمشق کے جنوب مغرب میں واقع الکسوہ نامی ایک دیہی علاقہ تھا، جہاں شامی فوج کا ایک اسلحہ ڈپو ہے۔ آبزرویٹری کے مطابق اس عسکری کارروائی کے نتیجے میں جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے اے ایف پی سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ اس اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں ایک اسلحہ ڈپو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا، تاہم یہ معلوم نہیں کہ یہ ڈپو حکومت کا تھا یا کسی اور عسکری گروہ کا۔
شامی فوج کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ اس اسرائیلی حملے میں متعدد مقامات پر چھ میزائل داغے گئے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر آگ بھی لگ گئی۔ اسرائیل کی طرف سے یہ مبینہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب ایک ہفتہ قبل ہی ایسی سیٹلائٹ تصاویر منظر عام پر آئی تھیں، جن میں الکسوہ میں ایرانی حمایت یافتہ لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے مشتبہ جنگجوؤں کی نشاندہی کی گئی تھی۔
یہ امر اہم ہے کہ ایران اور اس کی لبنانی حامی ملیشیا حزب اللہ شامی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں اسرائیلی حکومت کا الزام ہے کہ شامی خانہ جنگی میں ایرانی مداخلت دراصل اسرائیل اور شام کی سرحد پر ایک نیا فوجی محاذ بنانے کی ایک کوشش ہے۔ حزب اللہ نے سن دو ہزار چھ میں اسرائیل سے جنگ بھی کی تھی۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔