اسرائیلی حکومت نے غزہ کے ساتھ قائم مرکزی بارڈر کراسنگ کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ تل ابیب حکومت غزہ کی انتہا پسند تنظیم حماس کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا چاہتی ہے۔
اشتہار
حماس کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی اسرائیل نے کرم ابوسالم یا کیرم شالوم نامی سرحدی گزرگاہ کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی جانب سے کیا گیا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے بارڈر کراسنگ کی حتمی بندش کی تاریخ یا وقت کا نہیں بتایا ہے لیکن ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ اس پر فوری عمل درآمد ہو سکتا ہے۔
اسرائیلی فوج نے وضاحت دی ہے کہ کرم ابو سالم کی گزرگاہ کی بندش کے باوجود انسانی ہمدردی کی منظور شدہ اشیاء کی ترسیل کے لیے یہ کراسنگ کھولی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ پٹی کے لیے مچھلیاں پکڑنے کے سترہ کلومیٹر کے زون کو ایک مرتبہ پھر گیارہ کلومیٹر تک محیط کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ غزہ پٹی میں انتہا پسند فلسطینی تنظیم حماس سرگرم ہے اور یہ سرحدی گزرگاہ کمرشل اشیاء اور دوسرے ضروری سامان کی نقل و حمل کا واحد ذریعہ ہے۔ نیتن یاہو نے یہ ضرور واضح کیا کہ اس مناسبت سے مزید اقدامات بھی کیے جائیں گے اور اُن کی تفصیلات وقت کے ساتھ ساتھ سامنے لائی جائیں گی۔
اس کی بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ آیا اسرائیلی حکومت فلسطینی تنظیم حماس کے خلاف کوئی فوجی ایکشن لینے کی کوشش میں ہے۔ اسرائیل کو رواں برس تیس مارچ سے ہر جمعے کے دن فلسطینیوں کی جانب سے کیے جانے والے سرحدی احتجاج کا بھی سامنا ہے۔ اس احتجاجی سلسلے کے دوران اسرائیلی فوج کے جوابی اقدامات اور گولیوں سے 136 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل نے متنبہ کیا ہے کہ اگر شامی فوج نے گولان کی پہاڑیوں کے قریب عسکری کارروائی شروع کرنے کی کوشش کی تو اُسے شدید و سنگین نتائج کا سامنا کرنے پڑے گا۔ شام کی افواج ان ایام میں اپنے ملک کے جنوبی حصے میں باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل کو یہ فکر بھی لاحق ہے کہ جنوبی حصے پر اختیار مکمل کرنے کے بعد شامی صدر اسرائیلی سرحد کے قریب ایران کے فوجیوں اور حزب اللہ کے گوریلوں کو بھی متعین کر سکتے ہیں۔
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔