اسرائیل کا یک طرفہ جنگ بندی پر غور
17 جنوری 2009جمعہ کی دن مصر اور امریکی سفارت کاروں کی کوششوں کے بعد اگرچہ اسرائیل نے کہا کہ غزہ میں فوجی کارروائی آخری مرحلے میں ہے تاہم بعد ازاں اسرائیلی فضایہ نے غزہ پٹی میں مزید حملے کئے۔
دریں اثنا اسرائیلی سیاسی زرائع کے مطابق وزیر اعظم اے ہود المروٹ ہفتے کی رات اپنی سیکورٹی کابینہ کے اجلاس میں یک طرفہ جنگ بندی پرغور کریں گے۔ دوسری طرف اسرائیلی زرائع نے یہ بھی کہا کہ اس جنگ بندی کے لئے مصر کی ثالثی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔
اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی پر اس وقت غور شروع ہوا جب امریکہ اور مصر نے اسرائیل کو یقین دہانی کروائی کہ وہ فلسطینی علاقوں میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ روکنے میں مدد دیں گے۔
اسی سلسلے میں ایک معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لئے اسرائیلی وزیر خارجہ نے اچانک ہی امریکہ کو دورہ کیا۔ گزشتہ روز اپنے دورہ واشنگٹن کے دوران زپی لیونی نے اپنی امریکی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کی اور ایک امن معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت امریکہ اسرائیل کی مدد کرے گا کہ فلسطینی علاقوں میں اسلحے کی اسمگلنگ کو روکا جا سکے۔
اسرائیل اور امریکہ کے مابین اس امن معاہدہ پر دستخط کرنے کے بعد، اس معاہدے کے بارے میں صحافیوں کو بتاتے ہوئے لیونی کے ساتھ مترکہ پریس کانفرنس میں رائس نے کہا کہ اس معاہدے میں کئی ایسے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں جس کے تحت اسرائیل اور امریکہ غزہ میں ہتھیاروں اور اسلحے کی اسمگلنگ کو مل کر روکیں گے۔
کچھ دنوں میں ہی سبکدوش ہوجانے والی امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے کہا کہ غزہ میں موجودہ کشیدہ صورتحال کی وجہ غزہ میں اسلحے کی اسمگلنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس لئے امریکہ اور عالمی برادری پر یہ لازم ہے کہ حماس کو دوربارہ مسلح نہ ہونے دیا جائے۔ تاکہ جنگ بندی پائیدار ہو اور اس کا احترام کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں امریکہ اپنے دیگر ساتھیوں سے بھی رابطے میں ہے اوراگر امریکہ اور دیگر ساتھی ممالک مل کرکوشش کریں گے تو غزہ میں مستقل اور پائیدار جنگ بندی ممکن بنائے جا سکتی ہے۔ غزہ میں جاری جنگ میں شہری ہلاکتوں اور انسانی بحران کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے رائس نے کہا کہ اس حوالے سے ان سے جو کچھ ممکن ہو رہا ہے وہ کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ زپی لیونی نے کہا کہ اس جنگ کا خاتمہ صرف جنگ بندی کی سادہ سی درخواست سے ممکن نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس کے لئے عالمی برادری کو متحد اور موثر کوشش کرنا ہو گی کہ حماس اور اس طرح کی دیگردہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ ممکن بنایا جائے۔
زپی لیونی نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ اس جنگ کے ختم ہونے کے بعد بھی اسرائیل کو یہ حق حاصل رہے گا کہ وہ اپنی سلامتی اور تحفظ کے لئے غزہ میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ روکے اوروہاں دوبارہ عسکری طاقت جمع نہ ہونے دے۔ لیونی نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ طے پانے والے اس معاہدے میں یہ تمام باتیں عالمی برادری کی رضا مندی کے ساتھ ہوں گی۔
واضح رہےکہ اسرائیل کی طر ف سے ممکنہ یک طرفہ جنگ بندی، حماس کی دعوت پر نہیں ہو گی اس لئے غزہ پٹی میں اسرائیلی دفاعی افواج کچھ عرصہ کے لئے تعینات رہ سکیں گی۔ تاہم دوسری طرف لبنان میں سکونت پذیرحماس کے جلا وطن رہنما خالد مشعال نے ایک عرب ٹیلی وژن کو انٹر وریو دیتے ہوئے کہا کہ وہ تب تک کسی بھی جنگ بندی کو تسلیم نہیں کریں گے جب تک اسرائیلی افواج غزہ پٹی سے نکل نہیں جاتی اور علاقے کی ناکہ بندی ختم نہیں کر دی جاتی۔ اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ تیسرے ہفتے میں داخل ہو گئی ہے اور اس دوران کم از کم ساڑھے تین سو بچوں سمیت تقریبا ساڑھے گیارہ سو افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جبکہ تین اسرائیلی شہری اور دس فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔