’اسرائیل کو رياست تسليم کيے جانے کا فيصلہ معطل کيا جائے‘
صائمہ حیدر
16 جنوری 2018
فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کی فیصلہ سازی کے لیے دوسری بڑی مجلس عاملہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کیے جانا تب تک معطل کیا جائے جب تک اسرائیل، فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔
اشتہار
پی ایل او کی مرکزی کونسل کے چیئرمین سالم زنون نے اس تنظیم کی ایکزیگٹو کمیٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ فلسطین کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو اس وقت تک معطل کر دینا چاہیے، جب تک اسرائیل فلسطین کو آزاد ریادست تسلیم نہ کر لے۔ دوئم، یہودی بستیوں کی تعمیر کو روک نہ دے اور تیسرے یہ کہ شمالی یروشلم کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کو منسوخ کرے۔ فی الحال یہ واضح نہیں کہ فلسطینی صدر محمود عباس پی ایل او لے اس مطالبے کی توثيق کريں گے یا نہیں۔
سن 2015 میں محمود عباس نے فلسطینی لیبریشن آرگنائزیشن کے اُس مطالبے کو نظر انداز کر دیا تھا جس میں اُس نے اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون ختم کرنے کو کہا تھا۔
پی ایل او کی مرکزی کونسل نے سن 2015 کے اُس مطالبے کی تجدید کرتے ہوئے ’پیرس پروٹوکول‘ نامی معاہدے سے علیحدہ ہونے کو بھی کہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے اقتصادی معاملات کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔
پی ایل او نے راملہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اقدام کی جوابی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے میٹنگ بلائی تھی۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن عمل کا آغاز سن 1990 میں ہوا تھا۔اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان پہلا عبوری امن معاہدہ سن 1993 میں طے پایا تھا، جس نے محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی گورنمنٹ کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ تاہم صدر ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے اقدام نے اس منقسم شہر میں عشروں سے جاری امریکی پالیسیوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن کے لیے امریکا کی قیادت میں ہوئی ہر طرح کی کوششوں کو حال ہی میں مسترد کر دیا ہے۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔