1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل کو ’ٹھنڈا‘ کرنے کی امریکی کوشش

ندیم گِل25 نومبر 2013

امریکی صدر باراک اوباما نے اسرائیل کو یقین دہانی کروائی کے ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے واشنگٹن اور یروشلم حکومتوں کے تعلقات پر حرف نہیں آئے گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے اس معاہدے کو ’تاریخی غلطی‘ قرار دیا تھا۔

امریکی صدر باراک اوباماتصویر: Reuters

باراک اوباما نے چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین معاہدے کے بعد اتوار کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق وائٹ ہاؤس نے اس ٹیلی فونک گفتگو سے متعلق ایک بیان جاری کیا ہے جس کے مطابق اوباما نے زور دیا ہے کہ امریکا اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوطی سے قائم رکھے گا۔

اوباما نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ایران کے ارادوں پر شک کے لیے اسرائیل کی وجہ جائز ہے۔ وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق اوباما نے تصدیق کی ہے کہ وہ جامع حل تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کی کوششوں کے تناظر میں امریکا اور اسرائیل کے درمیان مشاورت کا عمل فوری شروع کرنے کے خواہاں ہے۔‘‘

عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ایران یورینیئم کی افزودگی پانچ فیصد کی سطح تک محدود رکھے گا۔ اس کے بدلے میں اس پر عائد پابندیاں ہٹائی جائیں گی۔ توقع ہے کہ اس سے ایرانی معیشت کو سات بلین ڈالر کا فائدہ ہو گا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہوتصویر: Reuters

معاشی تناظر میں عالمی منڈیوں پر اس معاہدے کے فوری اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں دو ڈالر فی بیرل کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جاپان اور آسٹریلیا کے بازار حصص میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔

جہاں اسرائیل نے اس معاہدے پر کڑی تنقید کی وہیں بیشتر عالمی رہنماؤں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا: ’’ہمیں آئندہ مہینوں کو باہمی اعتماد کی فضاء قائم کرنے کے لیے استعمال کرنا ہو گا۔‘‘

جرمن وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اس معاہدے کو شفاف اور قابلِ تصدیق انداز سے نافذ کیا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ جرمنی ’پی فائیو پلس وَن‘ گروپ کا حصہ ہے جس میں اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان امریکا، فرانس، برطانیہ، روس اور چین ہیں۔

ایران کا یہ معاہدہ اسی گروپ کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں طے پایا ہے۔ برطانیہ اور فرانس نے کہا ہے کہ وہ اس معاہدے کو کامیاب ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ روس نے بھی اس کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ چین کا کہنا ہے کہ اس سے بین الاقوامی جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں استحکام کے فروغ میں مدد ملے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں