1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران نے اسرائیل کے حوالے سے مغربی مطالبات رد کر دیے

13 اگست 2024

ایران نے مغربی ممالک کے ان مطالبات کو رد کر دیا ہے کہ وہ ایران اسرائیل کے خلاف کسی کارروائی سے باز رہے۔ حماس کے سابق رہنما اسماعیل ہنیہ کی ایرانی سر زمین پر ہلاکت کے بعد ایران نے اسرائیل سے بدلہ لینے کی دھمکی دی تھی۔

غزہ میں اسرائیلی بمباری کے بعد کا منظر
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران 142 فلسطینی مارے گئے جبکہ 150 سے زائد زخمی بھی ہوئے۔تصویر: Rizek Abdeljawad/Xinhua/IMAGO

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی کی طرف سے آج منگل 13 اگست کو جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ''فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی طرف سے جاری اعلامیے میں اسرائیلی حکومت کے بین الاقوامی جرائم پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا، جبکہ ایران پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ایک ایسی حکومت کے خلاف جوابی کارروائی سے باز رہے، جس نے ایران کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف ورزی کی ہے۔‘‘

فرانس، جرمنی اور برطانیہ کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ

اسرائیلی وزیر دفاع کی ایران، حزب اللہ کو جوابی کارروائی کے خلاف تنبیہ

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ''اس طرح کی درخواست سیاسی منطق سے عاری ہے، بین الاقوامی قواعد اور قوانین سے متصادم ہے اور اسرائیل کے لیے عوامی اور عملی مدد پر مبنی ہے۔‘‘

ایران اور اس کے اتحادی 31 جولائی کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی تہران میں ایک حملے میں ہلاکت کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کرتے ہیں۔تصویر: IMAGO/NurPhoto

ایران اور اس کے اتحادی 31 جولائی کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی تہران میں ایک حملے میں ہلاکت کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کرتے ہیں۔ ہنیہ نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران گئے تھے۔ اسرائیل کی طرف سے ابھی تک ہنیہ کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

ایران اسرائیل کے خلاف فوجی حملے کی دھمکیوں سے باز آئے، امریکی اور یورپی مطالبہ

ادھر پیر 12 اگست کو ایک بیان میں امریکہ اور اس کے بڑے یورپی اتحادیوں نے ایران پر زور دیا تھا کہ وہ کشیدگی میں اضافے سے باز رہے۔

امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا، ''ہم نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف فوجی حملے کی دھمکیوں کو ترک کر دے اور ہم نے اس طرح کے کسی حملے کی صورت میں نکلنے والے سنگین نتائج پر بھی تبادلہ خیال کیا۔‘‘

مشرق وسطیٰ بحران پر روسی صدر کی فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات

روسی صدر ولادیمیر پوٹن آج منگل 13 اگست کو ماسکو میں فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بات چیت کریں گے۔ یہ بات کریملن کی طرف سے پیر کو رات گئے بتائی گئی۔

کریملن کی طرف سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق، ''توقع ہے کہ  فلسطینی اسرائیلی تنازعے کی موجودہ شدت اور غزہ پٹی میں انسانی حوالے سے تباہ کن صورتحال کے تناظر میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔‘‘

فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس بدھ 14 اگست تک ماسکو میں رہیں گے جس کے بعد وہ ترکی جائیں گے جہاں ان کی ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ملاقات ہو گی۔

روس کے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سمیت عرب ریاستوں کے سربراہان کے ساتھ قریبی رابطے ہیں۔ تہران میں اسماعیل ہینہ کی ہلاکت کی روس کی طرف سے مذمت کی گئی تھی اور ساتھ ہی اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ تمام فریق مشرق وسطیٰ کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیلنے سے باز رہیں۔

روس کی طرف سے مغرب کو اس بات پر بھی مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ 1967 کی سرحدوں کے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے معاملے کو نظر انداز کر رہا ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پوٹن آج منگل 13 اگست کو ماسکو میں فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بات چیت کر رہے ہیں۔تصویر: YEVGENY BIYATOV/AFP

مغربی سفارت کار مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے کوشاں ہیں، جہاں غزہ کی جنگ کی وجہ سے پہلے ہی تناؤ عروج پر ہے۔

48 گھنٹوں میں 142 فسلطینی ہلاک

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران 142 فلسطینی مارے گئے جبکہ 150 سے زائد زخمی بھی ہوئے۔

پیر 12 اگست کو اس وزارت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق سات اکتوبر کو شروع ہونے والی غزہ کی جنگ میں فلسطینی ہلاکتوں کی تعداد اب 39,897 تک پہنچ گئی ہے،جبکہ 92000 ہزار سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

غزہ کی جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیل میں ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد ہوا تھا جس میں 1198 افراد مارے گئے تھے جبکہ 250 کے قریب افراد کو حماس کے جنگجو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی لے گئے تھے۔

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کون تھے؟

02:07

This browser does not support the video element.

ا ب ا/م م، ر ب (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں