فلسطینی صدر محمود عباس نے فیصلہ کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں پر عمل درآمد روک دیا جائے گا۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت پر ہوئی جب اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں کے درجنوں گھروں کو بلڈوزروں سے مسمار کر دیا ہے۔
اشتہار
خود مختار فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے اسرائیلی فورسز کی طرف سے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے عمل پر شدید تنقید بھی کی۔ محمود عباس نے کہا کہ اسرائیلی فورسز کی یہ کارروائی دراصل فلسطینیوں کو اس علاقے سے مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کا تعاون معطل کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے کہا، ''ہم قیادت کے فیصلے کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم اسرائیل کے ساتھ دستخط کردہ تمام معاہدوں پر عمل درآمد روک رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ بات جمعرات کو ویسٹ بینک کے شہر رملہ میں فلسطینی رہنماؤں کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد کہی۔
اسرائیلی اور فلسطینی متعدد معاملات پر آپس میں تعاون کرتے ہیں، جن میں پانی کی فراہمی سے لے کر سکیورٹی معاملات تک بھی آتے ہیں۔ تاہم عباس نے یہ نہیں بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی کن کن معاملات میں اسرائیلیوں کے ساتھ اپنا تعاون ختم کر رہی ہے۔
فلسطینی قیادت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق فوری طور پر ایک کمیٹی قائم کی جائے گی، جو اس فیصلے پر عمل درآمد کو ممکن بنائے گی۔
چوراسی سالہ صدر عباس نے ماضی میں بھی ایسی دھمکیاں دی تھیں تاہم ان پر عمل درآمد ممکن نہیں ہو سکا تھا۔ اب لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ محمود عباس نے انتہائی دو ٹوک الفاظ میں اس معاملے کو میڈیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔
مسماری کی وجہ سکیورٹی تحفظات بنے
اسرائیلی فورسز نے رواں ہفتے ہی مشرقی یروشلم میں واقع فلسطینیوں کے درجنوں گھروں کو بلڈوزروں کی مدد سے مسمار کر دیا تھا۔ یہ وہ علاقہ ہے، جو فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام ہے۔
اسرائیلی حکومت کے مطابق مسمار کردہ گھر دراصل سکیورٹی رکاوٹوں کے انتہائی قریب تھے، اس لیے سلامتی کی وجوہات کے باعث ان کا انہدام ضروری تھا۔
اس اسرائیلی کارروائی پر یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے بھی اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیا ہے۔
'یروشلم برائے فروخت نہیں‘
فلسطینی رہنما محمود عباس نے جمعے کے دن کہا کہ وہ بالخصوص یروشلم میں طاقت کے بے جا استعمال کو رد کرتے ہیں۔ نیوز ایجنسی WAFA نے عباس کے حوالے سے مزید بتایا کہ انہوں نے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 'صدی کی ڈیل‘ کو بھی مسترد کر دیا ہے۔
صدر عباس نے اصرار کیا، ''فلسطین اور یروشلم نہ تو برائے فروخت ہیں اور نہ ہی ان پر کوئی سمجھوتہ کیا جائے گا۔‘‘ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ فلسطینی قیادت منصفانہ، جامع اور پائیدار امن کے حصول کے لیے ہمہ وقت تیار رہے گی۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔