دو روزہ شدید جھڑپوں اور کم از کم چونتیس فلسطینی ہلاکتوں کے بعد بظاہر اسرائیل اور غزہ کی عسکری تنظیم ’اسلامک جہاد‘ کے مابین فائر بندی طے پا گئی ہے۔ دو روز سے اسرائیل کے بھی کئی علاقوں میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔
اشتہار
فلسطینی عسکری تنظیم 'اسلامک جہاد‘ کے ترجمان مصعب البریم کا کہنا تھا کہ مصر کی ثالثی میں ہونے والا امن معاہدہ جمعرات کی صبح پانچ بج کر تیس منٹ پر نافذ العمل ہو چکا ہے۔ ابھی تک اسرائیل نے اس فائر بندی کی تصدیق نہیں کی۔
ماضی میں بھی اسرائیل نے عسکری تنظیموں کے ساتھ ہونے والے کسی ایسے معاہدے کی عوامی سطح پر تصدیق شاذو نادر ہی کی ہے۔ دریں اثناء اسرائیلی حکومت نے ملک کے جنوب میں متعدد علاقوں کے رہائشیوں کو باہر نکلنے اور روزمرہ کے معمولات سرانجام دینے کی اجازت دے دی ہے۔
'اسلامک جہاد‘ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فائربندی اسرائیل کی جانب سے ان کی متعدد شرائط مان لینے کے بعد کی گئی ہے۔ ان شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ اسرائیل اس تنظیم کے قائدین کو نشانہ بنانے کا عمل ترک کر دے گا۔ غزہ کی اس عسکری تنظیم کو ایران کے بھی بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔
'اسلامک جہاد‘ اور اسرائیل کے مابین دو روز پہلے جھڑپوں کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب اسرائیل نے اس تنظیم کے ایک اعلیٰ کمانڈر کو ایک فضائی کارروائی کرتے ہوئے ہلاک کر دیا تھا۔ اسرائیل کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ تنظیم سرحد عبور کرتے ہوئے دراندازی کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔
اس کے بعد 'اسلامک جہاد‘ نے تقریبا چار سو راکٹ اسرائیل کی جانب داغے لیکن ان سے کوئی بھی بڑا جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا۔ ان راکٹوں کے جواب میں اسرائیل نے فضائی کارروائیاں کیں، جن کے نتیجے میں کم از کم چونتیس فلسطینی مارے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک سات سالہ بچہ اور ایک ہی خاندان کے چھ افراد بھی شامل تھے۔ غزہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سے کم از کم سولہ افراد کا تعلق 'اسلامک جہاد‘ سے تھا۔
دوسری جانب اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹس نے کہا ہے کہ ان کی 'ٹارگٹ کلنگ کی پالیسی‘ موثر ثابت ہو رہی ہے اور وہ سیزفائر کے لفظ کے باوجود اس پالیسی کو جاری رکھیں گے۔
غزہ میں برسر اقتدار حماس نے ابھی تک خود کو اس معاملے سے دور ہی رکھا ہوا تھا جس سے یہ اشارہ بھی لیا جا رہا تھا کہ تازہ جھڑپیں مختصر مدت کے لیے ہی جاری رہیں گی۔
ا ا / ش ح (ڈی پی اے، اے پی)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔