ٹھیک سو برس قبل برطانیہ کی طرف سے67 الفاظ پر مشتمل ایک بیان جاری کیا گیا تھا، جو بعد ازاں اسرائیل کے معرض وجود میں آنے کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوا تھا۔ تاہم فلسطینی علاقوں ’بیلفور اعلامیے‘ کو متنازعہ قرار دیا جاتا ہے۔
اشتہار
ٹھیک سو برس قبل دو نومبر کے دن اس دور کی برطانوی حکومت کی طرف سے ’بیلفور اعلامیے‘ کے نام سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا، جس میں مشرق وسطیٰ میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی حمایت کی گئی تھی۔ ایک خط پر مبنی اس بیان کے لکھنے والوں میں اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بیلفور بھی شامل تھے۔ اسی لیے اس اعلامیے کو انہی کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ تاہم تب یہ معلوم نہ تھا کہ مشرق وسطیٰ میں شروع ہونے والا ایک نیا تنازعہ حل کرنا ’ناممکن‘ ہو جائے گا۔
دو نومبر بروز جمعرات اس بیان کو جاری ہوئے ایک سو برس مکمل ہو گئے۔ اس مناسبت سے برطانیہ اور اسرائیل میں خصوصی تقریبات کا اہتمام بھی کیا گیا۔ دوسری طرف برطانیہ اور اسرائیل میں اس موقع کی مناسبت سے کئی تنظیموں نے مظاہروں کا انتظام بھی کیا۔
اس مظاہروں کے شرکاء کا مطالبہ ہو گا کہ لندن حکومت اعتراف کرے کہ اس کی طرف سے جاری کردہ اس اعلامیے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل کر رہ گیا اور فلسطینی عوام کی مشکلات میں بھی شدید اضافہ ہوا۔
تاہم اسرائیلی حکومت سابق برطانوی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ آرتھر بیلفور کو انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نہ صرف متعدد اسرائیلی سڑکوں کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے بلکہ تل ابیب کے ایک اہم اسکول کا نام بھی بیلفور کے نام پر رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف فلسطینی علاقوں میں ماضی کے اس برطانوی سیاستدان کو بہت متنازعہ قرار دیا جاتا ہے۔
کئی ناقدین بیلفور ڈیکلیریشن ہی کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین جاری عشروں پرانے تنازعے کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل نے سن 1948 میں اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ سن 1922 سے لے کر دوسری عالمی جنگ کے بعد بھی، یعنی سن انیس سو سینتالیس کے اواخر تک فلسطین کا انتظام برطانیہ ہی کے پاس تھا۔ 1922ء سے قبل یہ علاقہ ترکوں کی خلافت عثمانیہ کے زیر انتظام تھا۔
دنیا کے نقشے پر اسرائیلی ریاست کے ابھرنے کے بعد سے مشرق وسطیٰ کے حالات میں کئی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جبکہ یہ علاقہ جنگوں کی لپیٹ میں بھی رہا ہے۔ عالمی برادری کے رکن بہت سے ممالک کی طرح برطانیہ بھی اسرائیل کو اپنا انتہائی اہم حلیف ملک قرار دیتا ہے۔ اس خطے میں قیام امن کی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے اور عالمی برادری کی کوشش ہے کہ اس تناظر میں اسرائیلی حکومت بھی اپنا کردار بخوبی نبھائے۔
برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے ’بیلفور ڈیکلیریشن‘ کی تعریف و ستائش کرتے ہوئے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ اسی اعلامیے کی وجہ سے ’ایک عظیم ملک‘ کا قیام ممکن ہو سکا۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس اعلامیے کی اصل روح پر عمل نہیں ہو سکا۔ جانسن نے کہا کہ بیلفور اعلامیے کے تحت مشرق وسطیٰ کی تمام تر قوموں کو تحفظ دینے کی بات کی گئی تھی، اور یہ کام ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا۔
اسی تناظر میں فلسطینی صدر محمود عباس نے برطانوی اخبار ’گارڈین‘ کے لیے لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں لندن حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اعتراف کرے کہ بیلفور ڈیکلیریشن ایک غلطی تھا۔ برطانوی حکومت ماضی میں ایسے فلسطینی مطالبات مسترد کرتی رہی ہے کہ اس اعلامیے کو جاری کرنے اور فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم نہ کرنے پر برطانیہ سرکاری سطح پر معافی مانگے۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔