اسرائیل کے لیے جدید ترین جنگی طیارے اتنے اہم کیوں؟
11 دسمبر 2016پیر کے روز دو ایف تھرٹی فائیو جنگی طیارے اسرائیل کو مل جائیں گے جب کہ بقیہ اڑتالیس کی ترسیل بعد میں ہوگی۔ جہاں یہ طیارے انتہائی جدید ہونے کی وجہ سے بہت اہمیت کے حامل ہیں وہیں اس کی قیمت اور بعض ابتدائی نقائص کے باعث اس پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
مذکورہ طیارے امریکی کمپنی تیار کرتی ہے۔ امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر پیر کے روز ان طیاروں کی رونمائی کے وقت اسرائیلی وزیر دفاع کے ہم راہ اسرائیل کے نیواتم فضائی اڈے پر موجود ہوں گے۔
دنیا بھر میں کئی ممالک نے ایف تھرٹی فائیو طیاروں کے آرڈر دے رکھے ہیں تاہم اسرائیل، جسے امریکا سالانہ تین بلین ڈالر کی دفاعی امداد دیتا ہے، یہ طیارے حاصل کرنے والا پہلا ملک ہوگا۔ ہر طیارے کی اوسط قیمت تقریبا 110 ملین ڈالر ہے۔
دفاعی ماہرین کے مطابق ان طیاروں کی مدد سے اسرائیل مشرق وسطیٰ میں اپنی عسکری برتری کو مزید بہتر کر پائے گا۔ اس کے ذریعے اسرائیل مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک میں ایران کے اثر و رسوخ کو کم اور ان تنظیموں کے خلاف بہتر کارروائی کر سکے گا جن کو مبینہ طور پر ایران کی حمایت حاصل ہے۔ ان میں سر فہرست لبنان کی طاقت ور شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ ہے۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان سن دو ہزار چھ میں زبردست جنگ بھی ہو چکی ہے۔
گو کہ ان طیاروں کے جدید ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے تاہم اسرائیل کے بعض حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اتنے مہنگے جنگی طیارے خریدنے کی ملک کو ضرورت تھی؟
تاہم اسرائیل میں قائم انسٹیٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی اسٹڈیز سے وابستہ یفتاح شیپیر کا کہنا ہے کہ ایف تھرٹی فائیو طیارے مشرق وسطیٰ میں کسی اور کے پاس نہیں، اور یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہم فرانس، برطانیہ یا روس سے طیارے تو نہیں خرید سکتے تھے۔ امریکا ہمارا اتحادی ہے اور وہ ہمیں ایسا کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔‘‘