1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل کے لیے غیر مشروط تعاون ختم: ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

بیٹینا مارکس/ کشور مصطفیٰ26 فروری 2014

جرمنی اور اسرائیل کے مابین حکومتی سطح کی مشاورت پانچویں بار عمل میں آئی۔ رواں ہفتے پیر کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل ان سالانہ مذاکرات کے لیے اسرائیل کے دو روزہ دورے پر تل ابیب میں تھیں ۔

تصویر: Reuters

تاہم ڈوئچے ویلے کی بیٹینا مارکس کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات اتُنے بہتر اب نہیں رہے جتنے کبھی ہوا کرتے تھے۔

جرمنی اسرائیل کا وفادار اور قابل بھروسہ دوست سمجھا جاتا ہے۔ وفاقی جمہوریہ جرمنی اس چھوٹے سے ملک کی ایک طویل عرصے سے مدد کرتی آئی ہے۔ مثال کے طور پر اسلحوں کی فراہمی۔ جرمن عوام کے ٹیکس کی رقوم کے علاوہ جُزوی طور پر جرمنی کے بجٹ سے تیار کردہ جرمن ساخت کی ڈولفن آبدوزیں، اسرائیل کو دی جاتے رہی ہیں۔ اسرائیل کے لیے جرمنی کی عسکری امداد سے زیادہ اہم تل ابیب کے لیے برلن کی طرف سے سیاسی پشت پناہی ہے۔ یورپی یونین اور اقوام متحدہ میں جرمنی سالوں سے اسرائیل کی غیر مشروط ہمنوائی کرتا رہا ہے۔ جرمنی کی کوششوں سے اسرائیل کو ہمیشہ مراعات ملتی رہی ہیں اور برلن حکومت کی حمایت کی وجہ سے اسرائیل کی جنگی پالیسی پر یورپی یونین میں کبھی تنقید یا مذمت سامنے نہیں آئی۔

سن 2005 میں جرمنی کی چانسلر بننے کے بعد سے اب تک انگیلا میرکل دونوں ممالک کے غیر معمولی تعلقات کی نگران بنی رہیں۔ میرکل نے ہمیشہ کہا کہ اسرائیل کی سلامتی جرمنی کے قومی مفاد میں ہے۔ اسرائیل کی طرف سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے باوجود میرکل نے ہمیشہ اسرائیل کا ساتھ دیا۔ 2008 ء/ 2009 ء میں غزہ پر اسرائیل کے حملے، جس میں 1000 سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں، کے ایک روز یعد میرکل یروشلم پہنچیں تھیں جہاں انہوں نے اُس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اُلمرٹ کو اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا۔ تاہم کچھ عرصے سے اسرائیل اور جرمنی کی دوستی اور جرمنی کی طرف سے مشرق وسطیٰ کے اس اہم ملک کے لیے غیر مشروط حمایت کی راہ میں بعض رکاوٹیں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔

جرمنی میں بننے والی ڈولفن آبدوزیں دنیا بھر میں مشہور ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اچھے تعلقات کے راستے کا پتھر دراصل فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بسیتوں کی آبادکاری کی پالیسی ہے۔ میرکل اور تمام دنیا اس امر سےاتفاق کرتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے عمل کی راہ میں اسرائیل کی یہی پالیسی آڑے آ رہی ہے۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ایک زندہ فلسطینی ریاست کا قیام اگر اُس علاقے میں ممکن نہیں جہاں اسرائیل نے 1967 ء سے قبضہ کر رکھا ہے تو پھر کہاں ممکن ہے؟ اگر اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں مزید یہودی بستیاں بسانا چاہتا ہے تو وہ خود فلسطینیوں کے ساتھ اپنے دیرینہ تنازعے کے حل کو ناممکن بنا رہا ہے۔

اس تنازعہ کو ختم کرنے کا واحد حل دو ریاستی ہے۔ یعنی اسرائیل کے پہلو میں ایک فلسطینی ریاست کا قیام۔ اِس کا متبادل بحیرہ روم اور اُردن کے درمیان ایک ریاست کا وجود ہے جس میں اسرائیلی اور فلسطینی دونوں عوام مساوی حقوق کے ساتھ شانہ بشانہ چل سکیں۔ تاہم یہ حل اسرائیل کو منظور نہیں اور وہ اسے رد کرتا ہے کیونکہ اسرائیل ایک یہودی ریاست ہے جہاں قانونی اور اقتصادی اعتبار سے مراعت یافتہ یہودی اکثریت میں ہیں۔

میرکل کے دور میں اسرائیل کو بہت سی آبدوزیں فراہم کی گئی ہیںتصویر: AP

امن کی کوئی صورت نظر نہیں آتی

اسرائیل خود کو ایک ایسے خطرے سے دوچار کر رہا ہے جہاں سے نکلنا ممکن نہیں رہے گا۔ شاید اس یہودی ریاست کو مستقبل میں مشرق وسطیٰ کی ایک ریاست کے طور پر تو کوئی نقصان نہیں پہنچے، کیونکہ یہ عسکری طور پر بہت مضبوط ہے، تاہم اس کے عوام کے مستقبل کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو ایک خوشحال، جمہوری اور روشن خیال ماحول میں رہنے کے علاوہ اپنے بچوں کو پروان چڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس وقت یروشلم میں سخت گیر موقف رکھنے والی دائیں بازو کی حکومت مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے پُر امن اور منصفانہ حل کو ناممکن بنانے کوششوں میں ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ کہ موجودہ حکومت ریاست کی جمہوری بنیادوں کو ایک ایک کر کہ کمزور بناتی جا رہی ہے۔ متواتر ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جن کی مدد سے اسرائیل میں فلسطینی اور عرب اقلیت کے لیے زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جائے اور مختلف سیاسی سوچ کے حامل افراد کو زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ اسرائیل چھوڑ کر دیگر ممالک، خاص طور سے جرمنی کی طرف رُخ کرنے والے اسرائیلی باشندوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جرمنی اور اسرائیل کے حکومتی مذاکرات میں ایسے افراد کے لیے جرمنی میں رہائش اور روزگار کے اجازت ناموں کے حصول کو سہل بنانے کو اس دو طرفہ بات چیت کے گنے چُنے مثبت نتائج میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں