اسرائیل کی دو اہم سیاسی جماعتیں مقررہ وقت یعنی بدھ کی نصف شب سے پہلے اتحادی حکومت کے سلسلے میں کسی معاہدہ پرنہیں پہنچ سکیں جس سے ملک میں 2019کے بعد سے چوتھی مرتبہ انتخابات ناگزیر دکھائی دے رہے ہیں۔
اشتہار
مقامی میڈیا کے مطابق مقررہ وقت ختم ہوجانے کے باوجود نیتن یاہو کی لیکوڈ اور بینی گینٹس کی بلیو اینڈ وہائٹ پارٹی کے درمیان صلاح و مشورہ جاری ہے۔
اسرائیلی صدر ریوین ریولین نے ان خبروں کے بعد کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان بات چیت میں ’اہم پیش رفت‘ ہورہی ہے اسرائیلی پارلیمان کے اسپیکر بینی گینٹس اور وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہوکو کسی معاہدہ تک پہنچنے کی مدت میں 48 گھنٹے کی توسیع کردی تھی۔ لیکن مقررہ وقت ختم ہوجانے کے باوجود نہ تو گینٹس کی بلیو اینڈ وہائٹ پارٹی نے اور نہ ہی نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی نے کسی معاہدے پر پہنچنے کے حوالے سے اعلان کیا۔ اسرائیلی میڈیا کی خبرو ں کے مطابق مقررہ وقت گزر جانے کے باوجود دونوں جماعتیں کسی معاہدے کے سلسلے میں بات چیت کررہی ہیں۔
اگر دونوں جماعتیں اتحادی حکومت قائم کرنے میں ناکام رہتی ہیں توملکی قانون کے مطابق اسرائیلی پارلیمان کو 21 دنوں کے اندر حکومت کی تشکیل کے لیے کسی امیدوار کو منتخب کرنا ہوگا۔ لیکن اتنے محدود وقت میں اس طرح کے کسی متفقہ فیصلے کی امید بہت کم ہے۔ اگر پارلیمان کوئی امیدوار منتخب کرنے میں ناکام رہتی ہے، یا منتخب شخص 14 دنوں کے اندر حکومت سازی میں ناکام رہتا ہے تو اسرائیلیوں کو ایک بار پھر انتخاب میں حصہ لینے کے لیے کہا جائے گا۔
گینٹس اس سے قبل بھی نیتن یاہو کی قیادت والی حکومت میں شامل ہونے سے انکار کرچکے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ نیتن یاہو اقتدار میں شراکت کے ایسے فارمولے پر رضامند ہوسکتے ہیں جس کے تحت وہ اور بینی گینٹس یکے بعد دیگر وزیر اعظم بن سکیں گے جب کہ گینٹس پہلے وزیر اعظم کاعہدہ سنبھالیں گے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ نیتن یاہو کو جعل سازی، رشوت خوری او راعتماد شکنی جیسے الزامات کے تحت مقدمات کاسامنا ہے۔کورونا سے پیدا شدہ حالات کے پیش نظر اسرائیل کی ایک عدالت نے انہیں تھوڑی راحت دتے ہوئے مقدمے کے سماعت24مئی تک کے لیے ملتوی کردی ہے۔
اسرائیل میں کورونا وائرس کی وبا کے مدنظر سیاسی جماعتوں پر کسی معاہدہ پر پہنچنے کے لیے عوام کا دباو بڑھتا جارہا ہے۔کیوں کہ یہ امید کی جارہی ہے کہ اتحادی حکومت کے قیام کی صورت میں ملک میں کورونا وائرس سے پیدا شدہ بحران کا زیادہ موثر طور پر مقابلہ کیا جاسکے گا۔
کورونا وائرس کی وجہ سے اسرائیل میں اب تک 130افراد ہلاک اور 12500 سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
ج ا /ص ز (ایجنسیاں)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔