1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسفنکس آف بلوچستان‘ کی حقیقت کیا ہے؟

12 اکتوبر 2020

پاکستان میں مقامی طور پر 'پرنسز آف ہوپ‘ اور 'اسفنکس آف بلوچستان‘ جیسے عظیم الشان آثار قديمہ پر بہت کم تحقیق کی گئی ہے اور زیادہ تر ماہرین انہیں قدرتی کٹاؤ سے تشکیل شدہ چٹانیں ہی قرار دیتے ہیں۔ مگر چند کی رائے مختلف ہے۔

Princess of Hope Statue, Hingole National Park, Belutschistan, Pakistan
تصویر: Sadeeqa Khan/DW

کراچی سے لگ بھگ ڈيڑھ سو کلومیٹر کے  فاصلے پر واقع ہنگول نیشنل پارک جنگلی و سمندری حیات کے تحفظ کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے ۔ یہ پارک میملز کی پينتيس انواع  کے علاوہ پينسٹھ سے زائد سمندری حیات و رینگنے والے جانوروں کی انواع کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ گوادر، لسبیلہ اور پسنی تین اضلاع ميں پھيلا ہوا یہ پارک 2400 مربع میٹر پر محیط ہے۔

ہنگول نیشنل پارک سن 2002 میں اس وقت دنیا کی نظر میں آیا جب اقوام متحدہ کے ایک خیر سگالی مشن پر معروف ہالی ووڈ اداکارہ اینجلینا جولی یہاں دورے پر آئیں۔ اس دوران  ایک چٹان نے ان کی توجہ حاصل کی۔ یہ چٹان  دیکھنے میں ایک دراز قامت خاتون کا مجسمہ معلوم ہوتی ہے جو دور افق میں کچھ تلاش کر رہی ہے۔ اینجلینا جولی  نے اس چٹان کو 'پرنسز آف ہوپ‘ یا امید کی شہزادی کا نام دیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اینجلینا جولی اسی علاقے میں واقع ایک اور اہم ترین چٹان دریافت کرنے سے قاصر رہیں، جسے دنیا آج 'اسفنکس آف بلوچستان‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ چٹان مقامی مزدوروں اور انجینئرز  نے سن 2004 میں مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے دوران دریافت کی۔ مکران کوسٹل  ہائی وے ساحلی علاقوں اوڑماڑہ اور پسنی سے گزرتی ہوئی کراچی کو گوادر پورٹ سے ملاتی ہے۔ 'اسفنکس آف بلوچستان‘ کو مقامی لوگ ابوالہول بھی کہتے ہیں اور دور سے دیکھنے میں یہ گیزا (مصر) میں واقع مشہور اسفنکس مجسمے سے مشابہت رکھتا ہے۔

تصویر: Sadeeqa Khan/DW

اسفنکس کسے کہتے ہیں؟

آرکیالوجی کی اصطلاح  میں اسفنکس ایک ایسے مجسمے کو کہتے ہیں جس  کا سر عورت نما اور دھڑ شیر کی طرح ہو اور ہاتھوں کی جگہ عقاب کے پر ہوں۔ اس طرح کے مجسمے مصر، میانمار، بھارت، سری لنکا  اور جنوبی ایشیاء کے دیگر چند ممالک میں کثرت سے دریافت ہو چکے  ہیں جو عموماً مندروں کے  داخلی حصے میں ان کی حفاظت کے ليے بنائے جاتے تھے۔ گیزا (مصر) میں دریافت ہونے والا اسفنکس کا تاریخی مجسمہ 4500 سال پرانا ہے جو اہرام مصر کے عظیم پیرامڈ (تکون) کے قریب واقع ہے۔ اس مجسمے کا شمار دنیا کے قدیم ترین اور  سب سے بڑی یادگاروں میں ہوتا ہے۔ قدیم مصر میں اسفنکس  ایک روحانی سر پرست تھا، جسے مندر یا مزار کے داخلی حصے میں بنایا جاتا اور اس کے سر پر اسکارف ہوتا تھا۔

اسفنکس آف بلوچستان کیا ہے؟

جنوبی بلوچستان میں مکران کی ساحلی پٹی  کے ساتھ واقع ہنگول نیشنل پارک سن 1988 میں  مکمل ہوا تھا مگر اس کے بہت سے علاقے سن 2004 میں مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے بعد ہی تسخیر کيے جا سکے۔ انہی میں 'اسفنکس آف بلوچستان‘ بھی ہے، جو کوسٹل ہائی وے پر سڑک کنارے واقع ایک مجسمے نما چٹان ہے۔ اس کے ارد گرد مہراب نما چٹانیں کسی مندر کی موجودگی کی نشاندہی کرتی ہیں، جس کا اوپری حصہ شاید حوادثِ زمانہ کی نظر ہو گیا ہے۔ اسفنکس نما اس چٹان کے اوپری چہرے نما حصے میں جبڑے کی ہڈیاں، آنکھیں، ناک، کان اور منہ سب  اپنی مخصوص جگہ پر موجود ہیں جبکہ اس کے سر پر اسفنکس کا ہیڈ ڈریس بھی کسی حد تک دکھائی دیتا ہے، جو اسے فراعین کے مجسموں کے مشابہہ بناتا ہے۔ اس مجسمے کے درمیانے شیر نما حصے میں پنجے بھی بہت واضح ہیں۔ اگر دور سے اس چٹان کو بغور دیکھا جائے، تو یہ بلکل ہندوؤں کا مندر معلوم ہوتی ہے، جس کی تصدیق اسی علاقے میں موجود ہنگلاج ماتا کا مندر بھی کرتا ہے، جہاں ہندو زائرین آج بھی جوق در جوق جاتے ہیں ۔

تصویر: DW/A.G. Kaker

ماہرين آثار قدیمہ کیا کہتے ہیں؟

پاکستان میں مقامی طور پر 'پرنسز آف ہوپ‘ اور 'اسفنکس آف بلوچستان‘ جیسے عظیم الشان آثار پر بہت کم تحقیق کی گئی ہے اور زیادہ تر ماہرین  انہیں قدرتی کٹاؤ سے تشکیل شدہ چٹانیں ہی قرار دیتے ہیں۔ مگر پچھلے پندرہ برس سے دنیا بھر ميں آثارِ قدیمہ پر تحقیق کرنے والے بھارتی محقق ببھو دیو مسرا کے مطابق یہ پورا علاقہ ایک وسیع چٹانی کمپلیکس کی مانند ہے جو آرکیولو جسٹس کے ليے کسی جنت سے کم نہیں۔ ورلڈ بینک اور یو این او سے طویل عرصے تک وابسطہ رہنے والے ببھو دیو نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ہنگول نیشنل پارک میں دریافت ہونے والی چٹان کا موازنہ مصر اور انڈیا میں موجود اسفنکس کے مجسموں سے با آسانی کیا جا سکتا ہے۔ ''جنوبی ایشیا میں مندروں کے دو بنیادی حصے  منڈاپا اور وینامہ ہوتے ہیں۔ مجھے جو تصاویر موصول ہوئی ہیں ان کو دیکھ کر لگتا ہے اسفنکس آف بلوچستان کے اطراف میں وینامہ کا اوپری حصہ حوادث زمانہ کی نظر ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ  ہی چٹان کے اشکال گیزا کے اسفنکس سے جس قدر مشابہت رکھتے ہیں اسے دیکھ کر یہ کہنا کہ يہ چٹان قدرتی  عمل  سے از خود تخلیق ہوئی، آرکیولوجی اور انسانی تاریخ کے ساتھ بدترین نا انصافی ہوگی۔‘‘

کیا آپ بلوچی تھیریم یا بیسٹ آف بلوچستان کے بارے میں جانتے ہیں؟

بلوچستان میں جانوروں کی ہڈیوں کے ذریعے مستقبل کی پیشن گوئی

ببھو دیو کے مطابق  اگرچہ یہاں مڈ وولکانو کثرت سے ہیں اور زمینی کٹاؤ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تاہم ان کے خیال میں اسی کٹاؤ  کے تناسب سے یہ معلوم کيا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں مجسمے کتنے پرانے ہیں اور کیا ان کی تاریخ  مہران یا  ہڑپہ کی تہذیبوں سے جا ملتی ہے۔ ''میرے خیال میں اس پورے علاقے کا  فوٹو گرافک سروے کرانا انتہائی ضروری ہے۔ مثلاً  اسفنکس  کے آگے داخلی حصہ، گزر گاہ، مندر میں بنے چیمبرز اور ان پر بنی علامات کا بغور مشاہدہ اور ڈی کوڈنگ کر کے ہی  آرکیالوجسٹ اس امر کی تصدیق  کر سکتے ہیں کہ یہ  کسی قدیم تہذیب کے مجسمے ہیں۔ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ ہر دور میں انسان نے عمارتوں، مجسموں، غاروں میں کندہ خفیہ تحاریر کے ذریعے اگلی نسل تک کچھ پیغامات منتقل کيے ہیں جنہیں ڈی کوڈ کرنا ہمارا کام ہے۔‘‘

کراچی یونیورسٹی سے آرکیالوجی میں ماسٹرز سینئر صحافی فواد رضا نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ چٹان کے آس پاس پچاس سے ساٹھ کلومیٹر کےعلاقے میں کوئی آبادی نہیں ہے۔ وہاں کے بزرگ افراد سے یہ معلومات  لی جا سکیں کہ آیا وقت کے ساتھ یہ چٹانیں تشکیل پائیں یا پہلے سے موجود تھیں اور زمینی کٹاؤ یا شدید ہواؤں کے باعث ان کے خدوخال ماند پڑ تے گئے۔ لیکن انہیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ انسان  کے بنائے ہوئے مجسمے ہیں اور کسی دور میں یہاں آبادی رہی ہوگی۔ اس علاقے کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نانی مندر سے تھوڑا آگے بائیں جانب محمد بن قاسم کے ساتھیوں کی قبریں ہیں۔ ایسے تاریخی شواہد بھی ملے ہیں کہ سولويں صدی میں پرتگالی افریقہ سے حبشی غلام انڈیا میں مسلمان اور ہندو امراء کو فروخت کیا کرتے تھے تو عین ممکن ہے کہ ان حبشیوں کے ذریعے مصری ثقافت مکران منتقل ہوئی ہو، جس کے آثار آج ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن ان کی تاریخ کے بارے میں اسی وقت وثوق سے کچھ کہا جا سکتا ہے جب یہاں مکمل آرکیالوجی سروے کرایا جائے۔

بلوچستان کے خانہ بدوش اور روایتی پتھر کی روٹی ’کاک‘

03:07

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں