1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہامریکہ

اسقاط حمل تک رسائی کا حکم، بائیڈن کی طرف سے دستخطوں کا امکان

8 جولائی 2022

امریکی صدر بائیڈن ایک ایسا صدارتی فیصلہ کرنے والے ہیں، جس کا تعلق ملکی خواتین کے اسقاط حمل کے حق کے تحفظ سے ہے۔ جو بائیڈن کے عنقریب متوقع اس حکم سے خواتین کے لیے اسقاط حمل تک رسائی کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

 BG USA Nach dem Urteil des Oberste Gerichtshofs zum Abtreibungsrecht | Proteste in Washington
تصویر: Evelyn Hockstein/REUTERS

واشنگٹن سے موصولہ ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق جو بائیڈن پر ان کے ڈیموکریٹ حلقے کا غیر معمولی دباؤ ہے اور حال ہی میں امریکی سپریم کورٹ کی طرف سے خواتین کو حاصل اسقاط حمل کے حقوق کے وفاقی سطح پر ختم کیے جانے کے بعد سے امریکی صدر اس غیر معمولی دباؤ کو محسوس کر رہے تھے۔

دو ہفتے قبل امریکی سپریم کورٹ کی طرف سے ملک میں اسقاط حمل کے قانونی حق کو ختم کر دیا گیا تھا جکہ یہ حق پچاس سال قبل امریکی خواتین کو دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے سامنے آنے کے بعد ہی صدر بائیڈن نے اسے 'انتہا پسندانہ نظریات‘ پر مبنی ایک غلطی قرار دیا تھا۔

بائیڈن کے معتمد افراد کا انکشاف

امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک طرف تو ملک بھر میں جگہ جگہ اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے تو دوسری جانب ڈیموکریٹ حلقوں میں اس بارے میں بے چینی اور عدم اطمینان بھی پایا جاتا تھا۔ ان معاملات کی تفصیلات اور جو بائیڈن پر غیر معمولی دباؤ کا مشاہدہ کرنے والے ان کے تین بہت قریبی افراد نے یہ انکشاف کیا ہے کہ جمعہ آٹھ جولائی کو امریکی صدر ''تولیدی صحت کی دیکھ بھال اور اس بارے میں پبلک سروسز تک رسائی کے بارے میں بات کریں گے۔‘‘ مزید یہ کہ بائیڈن کے اس اقدام کا مقصد سپریم کورٹ کے اسقاط حمل پر پابندی کے حکم سے پیدا ہونے والے امکانات کی تخفیف بھی ہے، جن کے تحت اسقاط حمل کی خواہش مند خواتین کو اس حکم کے بعد ممکنہ سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اسقاط حمل: امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عالمی رہنماؤں کی کڑی تنقید

امریکی سپریم کورٹ کی طرف اسقاط حمل کے حقوق ختم کرنے پر سراپا احتجاج مظاہرینتصویر: Megan Jelinger/REUTERS

تاہم اس اقدام کی خواتین کی اسقاط حمل تک رسائی کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت محدود ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ بائیڈن انصاف، صحت اور انسانی خدمات کے محکموں کے لیے باضابطہ ہدایات جاری کریں گے، جن سے وفاقی سطح پر منظور شدہ خواتین کے اسقاط حمل کے لیے ادویات یا طبی سہولیات کے حق پر پابندی کے فیصلے کو روکا جا سکے گا۔

بائیڈن کی طرف سے اس سلسلے میں کسی سرکاری بیان کے سامنے آنے سے قبل ہی ان کے قریبی افراد نے اپنے نام ظاہر کیے بغیر ان کے اعلان کے ممکنہ نکات کا ذکر کر دیا۔

ایگزیکٹیو آرڈر کی ممکنہ ہدایات

جو بائیڈن کے صدارتی احکامات میں ایجنسیوں کے لیے بھی ہدایات شامل ہونے کے امکانات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان ایجنسیوں کو تاکید کی جا سکتی ہے کہ یہ طبی سہولیات فراہم کرنے والوں اور ہیلتھ انشورنس کمپنیوں کے ملازمین کو صحیح تعلیم اور آگاہی فراہم کریں تاکہ وہ مراعات یافتہ مریضوں کے بارے میں حکام کے ساتھ معلومات کا تبادلہ بھی کر سکیں۔ اس امر کا امکان بھی ہے کہ بائیڈن فیڈرل ٹریڈ کمیشن سے کہیں کہ آن لائن تولیدی صحت اور نگہداشت  سے متعلق معلومات حاصل کرنے والوں کے ڈیٹا پرائیویسی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔

اسقاط حمل پر پابندی کا قانون اور امریکا کی ’بائبل بیلٹ‘

امریکہ میں ایک قدامت پسند طبقہ سپریم کورٹ کے حق میں بھی ہےتصویر: Evelyn Hockstein/REUTERS

ہائی کورٹ کی رولنگ

امریکی صدر کا یہ فیصلہ یا صدارتی حکم نامہ 24 جون کو ہائی کورٹ کی طرف سے اسقاط حمل کے قانونی حق کو ختم کرنے کے اعلان کے بعد سامنے آ رہا ہے۔  ہائی کورٹ نے اسقاط حمل کے ملک گیر حق کا خاتمہ کر کے اس فیصلے کو ریاستوں پر چھوڑ دیا تھا۔ کورٹ کے فیصلے کے خلاف فوری طور سے ایکشن نہ لینے کے سبب ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے جو بائیڈن پر تنقید اور دباؤ کا سلسلہ جاری تھا۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سے بائیڈن یہ بھی زور دے کر کہہ چکے ہیں کہ کانگریس کے کسی ایکشن کے بغیر اسقاط حمل کے حق کے تحفظ کو صدارتی فیصلہ کرنے یا ایگزیکٹیو ایکشن لینے کا ان کا اختیار محدود ہے۔ گزشتہ ہفتے ڈیموکریٹ گورنرز کے ساتھ ورچوئل میٹنگ میں جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا تھا، ''بالآخر کانگریس کو وفاقی قانون کو کوڈی فائی کرنے کے لیے کام کرنا ہو گا۔‘‘

ک م / م م (اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں