1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہبرطانیہ

اسقاط حمل جرم نہیں، برطانیہ میں قانونی ترمیم کی منظوری

کشور مصطفیٰ اے پی کے ساتھ
18 جون 2025

برطانوی قانون سازوں کی طرف سے برطانیہ اور ویلز میں اسقاط حمل کو ناقابل تعزیر قرار دینے کی قانونی ترمیم کی منظوری دے دی گئی۔ قانون سازوں نے یہ دلیل پیش کی کہ اسقاط حمل کو جرم قرار دیتے ہوئے خواتین پر مقدمہ چلانا ظلم ہے۔

اسکاٹ لینڈ کی پارلیمان کے سامنے اسقاط حمل کے خلاف مردوں کا احتجاج
اسقاط حمل سے متعلق قانون بہت سے معاشروے میں نزع کا باعث بنا ہوا ہےتصویر: Andrew Milligan/PA

برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں منگل کے روز ہونے والی ووٹنگ میں قانون سازوں نے ایک وسیع ''جرائم بل‘‘ میں ترمیم کی منظوری دے دی۔ اس کا مقصد خواتین کو ایک  قدیم قانون کے تحت مجرم قرار دیتے ہوئے سزا دینے سے روکے گا۔ برطانوی پارلیمان کی رکن اور لیبر پارٹی کی سیاستدان تونیا اینٹونیازی نے مذکورہ قانون سے متعلق ایک ترمیم متعارف کرواتے ہوئے کہا کہ اس تبدیلی کی ضرورت اس لیے تھی کیونکہ پولیس نے گزشتہ 5 سالوں کے دوران  100  سے زائد خواتین سے مبینہ غیر قانونی اسقاط  حمل  کے بارے میں تفتیش کی۔ ان میں کچھ ایسی خواتین کے کیسز بھی شامل تھے، جنہیں قدرتی طور پر اسقاط حمل اور مردہ بچے کی پیدائش جیسے افسوسناک واقعات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تونیا اینٹونیازی نے مزید کہا،'' محض یہ قانون سازی ہی خواتین کو اس نظام انصاف سے نکال سکتی ہے کیونکہ یہ کمزور ہیں اور انہیں ہماری ضرورت ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،'' انصاف کے نام سے ان خواتین کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ دراصل انصاف نہیں ہے، اس ظلم کو اب ختم ہونا چاہیے۔‘‘ 

جرمنی میں اسقاطِ حمل سے منسلک پیچیدگیاں

02:38

This browser does not support the video element.

 

برطانوی پارلیمان میں  اسقاط حمل  سے متعلق مذکورہ قانون میں ترمیم کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں 379 ووٹ اس کے حق میں جبکہ 137 اس کے خلاف دیے گئے۔ اب اس بل کو  ہاؤس آف لارڈز میں  پیش کیا جائے گا جہاں اس کی منظوری میں تاخیر تو ہو سکتی ہے تاہم اسے بلاک نہیں کیا جا سکتا۔

گزشتہ سال میڈرڈ میں حقوق نسواں کے گروپس کے اراکین نے اسقاط حمل کے قانون کے خلاف مظاہرہ کیا اور مظاہرین کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھاتصویر: Richard Zubelzu/ZUMA/picture alliance

 موجودہ قانون

برطانیہ، سکاٹ لینڈ اور ویلز میں موجودہ قانون کے تحت حمل کے 24 ہفتوں کے دوران  اسقاط  کرایا جا سکتا ہے اور  اگر ماں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو تو، اس مدت کے بعد بھی۔ شمالی آئر لینڈ میں اسقاط حمل کو 2019 ء میں  ناقابل تعزیر یا اسے جرم نہ قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

پاکستان: اسقاط حمل میں اضافہ کیوں؟

04:39

This browser does not support the video element.

کووڈ 19 وبائی امراض اور اسقاط حمل

COVID-19 وبائی امراض کے دوران اسقاط حمل سے متعلق لاگو قانون میں تبدیلیوں کی اجازت دی گئی تھی۔ جن کے تحت خواتین کو بذریعہ ڈاک اسقاط حمل کی گولیاں حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور اس طرح حاملہ خواتین حمل کے پہلے  10 ہفتوں کے اندر اندر اپنے گھر میں ہی  اسقاط حمل  کر سکتی تھیں۔ تاہم اسقاط حمل کے قانون میں لائی گئی اس نرمی سے استقادہ کرنے والی کئی خواتین کے کیسز کی عوامی سطح پر تشہیر کی گئی اور ان پر 24 ہفتوں یا اس سے زیادہ کے عرصے پر محیط  اپنے حمل کو غیر قانرنی طور پر گرانے کے لیے گولیاں حاصل کرنے اور ان کا استعمال کرنے کے جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ 

لاس اینجلس میں 2024 ء میں ریپروڈکٹیو رائٹس کے لیے سرگرم خواتین نے ایک بڑا مظاہرہ کیا تھاتصویر: FREDERIC J. BROWN/AFP

اسقاط حمل کے مخالف گروپ اس قانون میں نرمی کی مخالفت کا استدلال یہ دیتے ہیں کہ اس سے حمل کے کسی بھی مرحلے پر خواتین کے لیے  اسقاط حمل  کا راستہ کھل جائے گا۔  

 ''سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف انبورن چلڈرن‘‘ جو خود کو برطانیہ کا سب سے بڑا ''پرو لائف‘‘ گروپ قرار دیتا ہے، کی پبلک پالیسی میجینر الیتھیا ولیمز کے بقول،''اس طرح نازائیدہ بچوں  کے لیے تحفظ کی ہر گنجائش چھین لی جائے گی اور خواتین کو ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘  

ادارت: عاطف بلوچ

 

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں