اسقاط حمل پر آئرش قانون، یورپی عدالت کا فیصلہ
17 دسمبر 2010یورپی عدالت نے آئرلینڈ حکومت کو شکایت گزار کو 15 ہزار یورو ہرجانے کی ادائیگی کا حکم بھی دیا ہے۔ آئرلینڈ میں رہائش پذیر لیتھوینیا کی خاتون کا کہنا تھا کہ پرائیویسی اور نجی زندگی سے متعلق ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔
آئرلینڈ میں اسقاط حمل کے حوالے سے سخت قوانین رائج ہیں۔ وہاں حاملہ خاتون کی زندگی کو درپیش خطرے کے علاوہ کسی دوسری وجہ سے اسقاطِ حمل کو مجرمانہ فعل تصور کیا جاتا ہے۔ یہ قوانین ڈیڑھ سو برس پرانے ہیں، جن کی خلاف ورزی پر عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
یورپی عدالت کا کہنا ہے کہ آئرش ضوابط کی وجہ سے شکایت گزار کے لئے زندگی کو لاحق خطرات کو ثابت کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ عدالت نے کہا، ’جب اس خاتون کو اپنے حاملہ ہونے کے بارے میں پتہ چلا، تو اسے یقین ہو گیا کہ حمل سے اس کا مرض مزید بگڑ جائے گا۔ اسی وجہ سے وہ اپنی صحت اور زندگی کے بارے میں تشویش میں پڑ گئی۔’
عدالت نے مزید کہا کہ آئرلینڈ کے پیچیدہ قوانین نے ڈاکٹر کے لئے بھی اس خاتون کو اسقاط عمل کا مشورہ دینا مشکل بنا دیا، کیونکہ اس کی تجویز ملکی قوانین کے خلاف ثابت ہوتی تو اسے بھی مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ اسی لئے متاثرہ خاتون نے برطانیہ جا کر اسقاط حمل کرانے کا فیصلہ کیا۔
یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والی دیگر دو خواتین نے بھی ایسی ہی اپیلیں دائر کی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئرش قوانین کی وجہ سے انہیں اسقاطِ حمل کے لئے برطانیہ جانا پڑا۔ تاہم یورپی عدالت نے ان دو خواتین کی اپیلیں مسترد کر دیں۔ ان میں سے ایک خاتون غیرشادی شدہ اور بے روزگار ہے جبکہ اس کے پہلے سے چار بچے تھے۔ دوسری خاتون بھی غیرشادی شدہ ہے اور وہ تنہا بچے کی پرورش کرنے کے لئے تیار نہیں۔
واضح رہے کہ آئرلینڈ میں کیتھولک مسیحیوں کی اکثریت ہے۔ کیتھولک عقائد بھی اسقاط حمل کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ آئرلینڈ میں کیتھولک کلیسا کے سربراہ کارڈینل سین براڈی کا کہنا ہے کہ یورپی عدالت کی جانب سے اسقاط حمل پر آئرش پالیسی کی مذمت سے ڈبلن حکومت پر اس عمل کو قانونی قرار دینے کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: عابد حسین