1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسقاط حمل پر پابندی کا قانون اور امریکا کی ’بائبل بیلٹ‘

15 جنوری 2021

امریکا کی جنرل اسمبلی اور سپریم کورٹ میں قدامت پسندوں کے ووٹوں میں اضافے سے ریاست نارتھ کیرو لائنا میں اسقاط حمل پر پابندی سے متعلق بل کی منظوری کافی حد تک یقینی ہو گئی ہے۔

USA Georgia State | Protest für Recht auf Abtreibung - u.a. Alabama & Georgia
تصویر: Getty Images/E. Nouvelage

امریکا کی جنرل اسمبلی اور سپریم کورٹ میں قدامت پسندوں کے ووٹوں میں اضافے سے ریاست نارتھ کیرو لائنا میں اسقاط حمل پر پابندی سے متعلق بل کی منظوری کافی حد تک یقینی ہو گئی ہے۔

امریکی ریاست ساؤتھ کیرو لائنا کے قانون ساز ایک بار پھر اسقاط حمل پر پابندی لگانے سے متعلق ایک بل پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں جس کے تحت اس ریاست میں زیادہ تر اسقاط حمل پر پابندی عائد ہو جائے گی۔ اس پابندی کا تعلق حمل کے چھٹے ہفتے میں جنین کے دل کی دھڑکن کی شروعات سے ہے، اس مرحلے کا آغاز ہونے کے بعد اسقاط کو روکنے کے لیے اس پابندی پر زور دیا جا رہا ہے۔ اسقاط حمل پر پابندی کا قانون متعدد امریکی ریاستوں میں منظور ہو چکا ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا کیونکہ اسے کورٹ ميں چیلنج کر دیا گيا ہے۔

سالوں سے 'جنوبی کیرو لائنا فیٹل ہارٹ بیٹ اینڈ پروٹیکشن فروم ابورشن ایکٹ‘ کے لیے جاری مہم کے ذریعے اس بل کو ایوانوں سے لے کر سینٹ تک پہنچانے میں کامیابی حاصل ہوئی تاہم یہ بل قانون کی حیثیت حاصل کرتے ہوئے نافذ العمل نہیں ہو سکا کیونکہ اسے سینیٹرز کے دو تہائی ووٹ نہ مل سکے۔ اس بل کے چند حمایتی اسے پاس کرانے میں ہچکچاہٹ بھی محسوس کر رہے تھے جس کی وجہ اس سے جُڑے خطرات اور عدالت میں عدالت سے رد کر دیے جانے پر آنے والے اخراجات تھے۔

جارجیا میں اسقاط حمل کے حق کے لیے منعقد مظاہرہ۔تصویر: Reuters/C. Aluka Berry

سال 2020 میں دو بڑی تبدیلیاں

گزشتہ برس یعنی 2020 ء میں ایک اہم تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ ری پبلکنز نے ڈیموکریٹس سے سینيٹ کی تین مزید نشستیں حاصل کر لیں اور سینیٹ چیمبرز کی 46 نشستوں میں سے 30 نشستوں  کے ساتھ اپنی اکثریت منوا لی۔ دوسری بڑی تبدیلی اُس وقت دیکھنے میں آسی جب سپریم کورٹ کی جسٹس روتھ بیڈر گنسبرگ کا انتقال ہوا۔ یہ اسقاط حمل پر سخت پابندی کے خلاف سپریم کورٹ کا ایک معتبر ووٹ سمجھی جاتی تھیں۔ گنسبرگ کے انتقال کے بعد بطور سپریم کورٹ جسٹس ایمی کونی بیرٹ منتخب ہوئیں۔ ان کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ وہ اپنی حکمرانی میں قدامت پسندی کے ساتھ اسقاط حمل کی مخالفت کریں گے۔  

امریکا کی'بائبل بیلٹ‘

امریکا میں بہت سی ریاستیں ایسی ہیں جنہیں 'بائبل بیلٹ‘ کہا جاتا ہے یعنی جو بنیاد پرست کرسچین آبادی پر مشتمل علاقے ہیں۔ جنوبی کیرو لائنا حالیہ صدی کی آمد تک اسقاط حمل پر سخت پابندی کی گڑھ ریاست مانی جاتی تھی تاہم حالیہ کچھ عرصے سے امریکا کی درجنوں ریاستوں میں اس قانون کی منظوری دیے جانے کے سبب جنوبی کیرو لائنا میں ایک طرح کا انتشار پیدا ہو گیا۔ خاص طور سے جنوبی کیرو لائنا کی پڑوسی ریاستیں جارجیا، ٹینیسی، تھوڑا فاصلے پر قائم میسوری میں اس قانون کی منظوری نے جنوبی کیرو لائنا کے قدامت پسندوں نے بھی اس بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ یہ قوانین اب بھی عدالتوں سے جُڑے ہوئے ہیں۔

اٹلانٹا میں ہزاروں سرگرم، عورتوں کو اسقاط حمل کے فیصلے کے حق کے حصول کے لیے سڑکوں پر۔تصویر: Getty Images/E. Nouvelage

ساؤتھ کیرولائینا کے 'اسٹیٹ کوآڈینیٹر فار دا نیشنل ڈے آف پریئرز‘ نے اس بارے میں ایک  بیان دیتے ہوئے لکھا،''مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ہم اب بھی اس بحث میں پڑے ہوئے ہیں۔ ایک عرصہ پہلے ہم اس پر بات چیت کر رہے تھے۔ اب وقت آ گیا ہے اس قانون کی منظوری کا۔‘‘

   

بل کے مخالفین کا موقف

بل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اسقاط حمل کے اس قانون کا مطلب اسقاط حمل کے تمام کیسز کو غیر قانونی قرار دینا ہے، کیونکہ عام طور سے خواتین کو اپنے حمل کا اندازہ اُس وقت ہوتا ہے جب ان کے جنین کی دل کی دھڑکن سنی جا سکتی ہے۔ ان مخالفین کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سینیٹ کی میڈیکل امور کی کمیٹی اس وقت اسقاط حمل پر کیوں زور دے رہی ہے جبکہ ان کی توجہ کا مرکز کووڈ انیس ہونا چاہیے جو اس ریاست میں 5 ہزار چار سو سے زائد انسانوں کی جان لے چُکا ہے۔

واشنگٹن ڈی سی میں امریکی سپریم کورٹ تک اسقاط حمل کے حق کے لیے آواز اُٹھانے والی خاتون۔تصویر: Getty Images/AFP/A. Gassot

یاد رہے کہ اس بل میں کچھ استثنیٰ بھی شامل ہے۔ جیسے کہ اگر حاملہ خاتون کی جان کو حطرہ لاحق ہو۔ اس امر پر بھی غالباً کافی بحث ہونے کے امکانات ہیں کہ اگر کسی عورت کا ریپ ہوا ہے یا اُس کی عصمت دری کی گئی ہے تو اسے حمل کے اسقاط کا حق حاصل ہونا چاہیے یا نہیں؟

 

ک م / ع س/ ایجنسیاں

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں