1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسقاط حمل کی قانونی اجازت: آئرلینڈ میں تاریخ رقم کر دی گئی

14 دسمبر 2018

آئرلینڈ میں اس سال ہوئے ایک تاریخی ریفرنڈم کے بعد خواتین کو پہلی بار اسقاط حمل کی قانوناﹰ اجازت ہو گی۔ وزیر اعظم لیو وراڈکر نے اس بارے میں ایک قانون کی پارلیمانی منظوری کو ’آئرش خواتین کے لیے تاریخی لمحہ‘ قرار دیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/AP/P. Morrison

ڈبلن میں جمہوریہ آئرلینڈ کی قومی پارلیمان نے اس قانون کی منظوری جمعرات تیرہ دسمبر کو رات گئے دی۔ نئے قانون کے مطابق حاملہ آئرش خواتین اب اپنے حمل کے پہلے 12 ہفتوں کے اندر اندر نہ صرف اپنی مرضی کے مطابق اسقاط حمل کروا سکیں گی بلکہ انہیں ان صورتوں میں بھی طبی طور پر ایسا کروانے کی اجازت ہو گی جب کسی حاملہ خاتون کی جان کو خطرہ ہو یا اس کی صحت کو نقصان پہنچنے کے شدید خطرات موجود ہوں۔

اس قانون کے تحت کوئی خاتون اس وقت بھی اسقاط حمل کروا سکے گی، جب یہ طے پا جائے کہ نازائیدہ بچہ طبی طور پر معمول کا صحت مند بچہ نہیں ہو گا اور پیدائش سے پہلے ہی یا زیادہ سے زیادہ پیدائش کے بعد 28 دنوں کے اندر اندر اس کی موت واقع ہو سکتی ہو۔

آئرلینڈ میں، جو اکثریتی طور پر کیتھولک مسیحی آبادی والا ملک ہے، اس سال مئی میں ایک ایسا تاریخی ریفرنڈم کرایا گیا تھا، جس کا مقصد اسقاط حمل پر قانونی پابندی کا خاتمہ تھا۔

اس ریفرنڈم میں رائے دہندگان کی دو تہائی اکثریت نے اس امر کی حمایت کر دی تھی کہ ایک ایسا نیا قانون بنایا جانا چاہیے، جس کے تحت حاملہ خواتین کو اسقاط حمل کی قانونی طور پر اجازت ہو۔

اس قانون سازی کے بعد آئرش وزیر اعظم لیو وراڈکر نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں نئے قانون کی منظوری کو ’آئرش خواتین کے لیے ایک تاریخی لمحہ‘ قرار دیا۔

ملکی وزیر اعظم کے علاوہ آئرش وزیر صحت سائمن ہیرس نے بھی ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا، ’’دو سو دنوں سے کچھ ہی زیادہ عرصہ قبل آپ (آئرش عوام) نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ آرٹیکل آٹھ کو ختم کر دیا جائے تاکہ آئرش خواتین کی صحت کا ان کے ساتھ ہمدردی اور اظہار یکجہتی کے ساتھ دھیان رکھا جا سکے۔‘‘

سائمن ہیرس نے مزید لکھا، ’’آج ہم نے یہ قانون منظور کر کے اسے ایک حقیقت بنا دیا ہے، تاکہ اسقاط حمل کے عمل سے جڑے ہوئے ناپسندیدگی کے احساس کو ختم کیا جا سکے اور آئرش خواتین کی اس حد تک تائید و حمایت کی جا سکے کہ وہ اپنے بارے میں ایسے فیصلے خود کر سکیں۔‘‘

جمہوریہ آئرلینڈ میں جہاں اس قانون کی منظوری سے پہلے تک اسقاط حمل کروانا غیر قانونی تھا، 1980ء کی دہائی سے کل جمعرات کے دن تک قریب پونے دو لاکھ آئرش خواتین ہمسایہ ملک برطانیہ جا کر اسقاط حمل کروا چکی تھیں۔ یہ تبدیلی اس لیے بھی ممکن ہو سکی کہ آئرلینڈ میں حالیہ برسوں میں کیتھولک کلیسا کے اثر و رسوخ میں کافی کمی ہوئی ہے۔

اس قانون سازی کے بعد آئرلینڈ کی وزارت صحت نے اس سلسلے میں ابتدائی تیاریاں شروع کر دی ہیں کہ ملکی خواتین جنوری 2019ء سے پہلی بار اپنے ملک میں ہی اسقاط حمل کرا سکیں۔

م م / ع ب / اے ایف پی

باویریا کے کیتھولک مسیحیوں میں اسقاط حمل متنازعہ

01:49

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں