اسلامک اسٹيٹ کے جرمن جہادی والدين کے بچوں کی جرمنی آمد
6 اپریل 2019جرمنی نے شام اور عراق ميں زير حراست اپنے شہريوں کے بچوں کو واپس بلا ليا ہے۔ يہ بچے ان جرمن شہريوں کے بچے ہيں، جو شام اور عراق ميں اسلامک اسٹيٹ کے ليے لڑ چکے ہيں اور اس گروہ کی پسپائی کے بعد گرفتار کر ليے گئے تھے۔ جرمن وزارت خارجہ نے جمعے کو اس امر کی تصديق کی کہ ايسے چند بچوں کو اسی ہفتے جرمنی لايا گيا ہے۔
شام اور عراق ميں اسلامک اسٹيٹ کی خود ساختہ خلافت کے خاتمے کے بعد کئی يورپی ممالک اس بارے ميں غور و فکر جاری رکھے ہوئے ہيں کہ ان يورپی شہريوں کے ساتھ کيا کيا جائے جو اس دہشت گرد گروہ کی صفوں ميں شامل ہو کر لڑ چکے ہيں۔ ايسے سينکڑوں يورپی جہادی اس وقت امريکی حمايت يافتہ کرد فورسز سيريئن ڈيموکريٹک فورسز کی قيد ميں ہيں۔ جرمن حکام کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر ساٹھ کے قريب جرمن شہری کرد فورسز کی قيد ميں ہيں۔ ان ميں سے آٹھ کو سنگين جرائم ميں کئی برس کی قيد يا سزائے موت بھی دی جا چکی ہے۔
جرمن وزارت خارجہ کے بيان ميں مطلع کيا گيا ہے کہ ان بچوں کو ان کے والدين کی مرضی سے جرمنی لايا گيا ہے۔ وزارت کے ايک ذرائع کے مطابق اس وقت يہ بچے جرمنی ميں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہ رہے ہيں۔ اس سلسلے ميں سب سے پہلے تين بچے اپنی والدہ کے ہمراہ اشٹٹ گارٹ کے ايئر پورٹ پر جمعرات چار اپريل کے روز اترے۔ اس اہل خانہ کے وکيل محمود اردم نے بتايا کہ خاتون کو فوری طور پر حراست ميں لے ليا گيا۔ اس عورت کے بارے ميں شبہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان کے والد کی اجازت کے بغير سن 2015 ميں شام لے گئی تھی۔
جرمن وزارت داخلہ کے اندازوں کے مطابق تقريباً ايک ہزار جرمن شہريوں نے سن 2013 کے بعد مختلف دہشت گردانہ گروہوں کے ساتھ شامل ہونے کے ليے ملک چھوڑا۔ ان ميں سے تقريباً ايک تہائی افراد واپس جرمنی آ چکے ہيں۔ جرمنی کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی ميں مختلف مقامات پر زير حراست جرمن شہريوں کو واپس جرمنی لانے کی کوشش کی جائے گی۔ وزارت بالخصوص ان بچوں کے بارے ميں فکر مند ہے، جن کے بارے ميں حکام کا ماننا ہے کہ وہ اس مسلح تنازعے ميں پھنس جانے والے اور بے قصور ہيں۔
آئندہ ہفتے جمعے کے روز جی سيون ممالک کے وزرائے داخلہ اس بارے ميں تبادلہ خيال کرنے والے ہيں کہ شام اور عراق ميں زير حراست غير ملکی جہاديوں کے ساتھ کيا کيا جائے۔
ع س / ع آ، نيوز ايجنسياں