’اسلامک اسٹیٹ‘ امریکا، یورپ کے لیے بھی ممکنہ خطرہ: جنرل ڈیمپسی
26 اگست 2014عراق اور شام میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر جہاں عالمی سطح پر تشویش بڑھتی جا رہی ہے، وہیں شامی حکومت نے کہا ہے کہ وہ عالمی برادری کو لاحق ’دہشت گردی‘ کے اس خطرے کے خلاف جنگ میں امریکا کے ساتھ تعاون پر تیار ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر ناوی پلے نے پیر کے روز کہا کہ عراق میں اسلامک اسٹیٹ اور اس کے حامی گروہوں کی غیر عرب اور غیر سنی مسلمانوں کے علاوہ دیگر گروپوں کے خلاف کارروائیاں بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جہادی ٹارگٹ کلنگ، زبردستی تبدیلی مذہب، اغوا، انسانی اسمگلنگ اور مقدس مذہبی و ثقافتی مقامات کی تباہی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ناوی پلے کے بقول، ’’یہ (جہادی) ایک منظم طریقے سے خواتین، مردوں اور بچوں کو مذہبی، نسلی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر نشانہ بنا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہا پسند جنگجو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں وسیع پیمانے پر نسلی اور مذہبی بنیادوں پر قتل عام کر رہے ہیں۔ اس خاتون اہلکار نے یہ بھی کہا کہ یہ تمام تر کارروائیاں انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔
اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے عراق کے علاوہ شام کے وسیع تر علاقوں پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ اس صورتحال میں امریکی افواج کی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل مارٹن ڈیمپسی نے خبردار کیا ہے کہ ان جہادیوں سے جلد ہی امریکا اور یورپ کو بھی خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ جنرل ڈیمپسی کے ترجمان نے کہا، ’’وہ (جنرل ڈیمپسی) یقین رکھتے ہیں کہ عراق اور شام دونوں ممالک میں ہی ان (جنگجوؤں) کے خلاف دباؤ بڑھانا ہو گا۔‘‘
یہ امر اہم ہے کہ امریکی فضائیہ پہلے ہی عراق میں ان جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کر چکی ہے جبکہ اس نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ شام میں بھی ان انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہے۔ دریں اثناء شامی وزیر خارجہ ولید المعلم نے کہا ہے کہ دمشق حکومت اسلامک اسٹیٹ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف امریکا اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے تیار ہے۔ پیر کے دن انہوں نے شامی دارالحکومت میں ایک پریس کانفرنس کے دوران البتہ کہا کہ شام میں امریکی کارروائی دمشق حکومت کے ساتھ رابطہ کاری کے ساتھ ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ دمشق کے رضا مندی کے بغیر کوئی بھی بیرونی عسکری کارروائی جارحیت تصور کی جائے گی۔
ادھر پیر کے دن ہی وائٹ ہاؤس کی طرف سے بتایا گیا کہ شام میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف ممکنہ فضائی کارروائی کے بارے میں صدر باراک اوباما کو فیصلہ ابھی کرنا ہے۔ اے ایف پی نے ایک اعلیٰ امریکی اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ واشنگٹن حکومت شام میں جاسوس طیارے روانہ کرنے کی تیاری میں ہے تاکہ وہاں جنگجوؤں کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ شام میں ان جہادیوں کے خلاف فضائی کارروائی کے لیے اس پیشرفت کو پہلا قدم تصور کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف کرد حکام نے کہا ہے کہ ان کی فورسز نے صوبے دیالہ کے علاقے جلولا میں واقع تین دیہات میں جہادیوں کا پسپا کر دیا ہے۔ کرد فورسز نے اس علاقے کی ایک اہم شاہراہ پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جنگجو اس شاہراہ کو اسلحے اور فائٹرز کی نقل و حرکت کے لیے استعمال کرتے تھے۔