اسلامی سمٹ میں فلسطینیوں، ایران کے خلاف سعودی عرب کی حمایت
1 جون 2019
سعودی عرب کی میزبانی میں اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی کے ایک سربراہی اجلاس میں ہفتہ یکم جون کو امریکی قیادت میں ایک نئے امن منصوبے سے قبل فلسطینیوں اور ایران کے ساتھ علاقائی کشیدگی میں سعودی عرب کی حمایت کی گئی۔
اشتہار
خلیج کی قدامت پسند عرب بادشاہت سعودی عرب میں مسلمانوں کے لیے مقدس ترین شہر مکہ سے ہفتہ یکم جون کے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکا کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے حل کے لیے جو نیا امن منصوبہ تشکیل دیا جا رہا ہے، اس میں ممکنہ طور پر واشنگٹن خطے میں اپنے اہم ترین اتحادی ملک اسرائیل ہی کی حمایت کرے گا۔
لیکن اسی خدشے کے پیش نظر مکہ میں اسلامی تعاون کی تنظیم کی سمٹ میں شرکاء نے اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کی حمایت کی۔ ساتھ ہی خطے میں سعودی عرب اور ایران کے مابین پائی جانے والی رقابت کے تناظر میں خطے کی عرب ریاستوں نے حسب توقع سعودی عرب کی ہم نوائی کا راستہ اپنایا۔
او آئی سی کا یہ اجلاس مکہ میں ہونے والا تیسرا اجلاس تھا اور اس مرتبہ اس کا مرکزی موضوع ایران کے ساتھ کشیدگی ہی تھی۔ اس سمٹ میں شریک رہنماؤں، خاص طور پر خلیجی عرب ریاستوں کے حکمرانوں نے امریکا کے اس اقدام کی مذمت کی، جس کے تحت واشنگٹن نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا ہے۔ ساتھ ہی امریکا نے گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں پر اسرائیل کے حق کو بھی تسلیم کر لیا ہے، اور یہ بات بھی عرب رہنماؤں کی طرف سے مذمت کا سبب بنی۔
یروشلم کی حیثیت
اس سربراہی اجلاس کی اہم بات ایران اور ترکی کے اعلیٰ ترین رہنماؤں کی غیر حاضری تھی۔ اس اجلاس کے شرکاء نے اسلامی تعاون کی تنظیم کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ ان ممالک کا بائیکاٹ کریں، جنہوں نے یروشلم میں اپنے سفارتی مشن کھول لیے ہیں۔
یروشلم ایک مقبوضہ شہر ہے، جسے اسرائیل اپنا ابدی حصہ قرار دیتا ہے۔ ماضی میں امریکا اس شہر پر اسرائیل اور فلسطینیوں کی ملکیت کے دعووں کے حوالے سے دو فریقی پالیسی اپنائے ہوئے تھا۔ لیکن پھر دسمبر 2017ء میں امریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن کی کئی عشروں سے چلی آ رہی سیاست میں یکدم ایک بڑا موڑ لیتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا اور ساتھ ہی امریکی سفارت خانہ بھی تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا گیا تھا۔
یہ پیش رفت اس لیے بھی مروجہ سفارتی اصولوں کے منافی تھی کہ اسرائیل کے ساتھ اپنا عشروں پرانا تنازعہ حل ہو جانے کے بعد فلسطینی مستقل میں اپنی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا دارالحکومت یروشلم کے مشرقی حصے کو ہی بنانا چاہتے ہیں۔
صدی کا سب سے بڑا معاہدہ
امریکی صدر ٹرمپ کے داماد اور مشیر جیئرڈ کُشنر مشرق وسطیٰ میں حتمی قیام امن کے لیے جس امن منصوبے پر کام کر رہے ہیں، اسے خود ڈونلڈ ٹرمپ 'صدی کا سب سے بڑا معاہدہ‘ بھی قرار دے چکے ہیں لیکن خود فلسطینی اسے پہلے ہی سے مسترد کر چکے ہیں۔ اس معاہدے کی تفصیلات اسی مہینے بحرین میں ہونے والی ایک کانفرنس میں پیش کی جائیں گی۔
ایران کے خلاف سعودی عرب کی حمایت
اسلامی تعاون کی تنظیم کے رکن ممالک کی موجودہ تعداد 57 ہے اور مکہ میں ہونے والے اجلاس میں اس تنظیم کی رکن ریاستوں نے ایران کے ساتھ علاقائی کشیدگی میں نہ صرف ریاض حکومت کی حمایت کی بلکہ سعودی عرب کے شاہ سلمان نے بھی اپنے خطاب میں تنبیہ کی کہ خلیج کے علاقے میں 'دہشت گردانہ‘ حملے عالمی منڈیوں کو تیل کی ترسیل کے عمل کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔
شاہ سلمان کا نام لیے بغیر اشارہ واضح طور پر ایران کی طرف بھی تھا۔ اور اس کا پس منظر یہ تھا کہ ایک طرف تو حال ہی میں متحدہ عرب امارات کے ساحلوں کے قریب چار مال بردار بحری جہازوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جن میں سے دو سعوی عرب کے آئل ٹینکر تھے، اور پھر یمن کی جنگ میں ایران نواز حوثی باغیوں نے بھی دو اسے ڈرون حملے کیے تھے، جن کے نتیجے میں سعودی عرب کی ایک انتہائی اہم تیل پائپ لائن بند کرنا پڑ گئی تھی۔
خليجی خطے کی حاليہ کشيدگی، کب کب، کيا کيا ہوا
امريکا کی جانب سے فوجيوں کی تعداد میں اضافہ اور عسکری ساز و سامان کی تعيناتی، سعودی تنصيبات پر حملے و ايران کی دھمکياں۔ خليج کے خطے ميں اس وقت شديد کشيدگی پائی جاتی ہے۔ چند حاليہ اہم واقعات پر ڈی ڈبليو کی تصاويری گيلری۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi
امريکا کی جوہری ڈيل سے دستبرداری، کشيدگی کی نئی لہر کی شروعات
ايران کی متنازعہ جوہری سرگرميوں کو محدود رکھنے کی غرض سے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015 ميں طے پانے والے معاہدے سے آٹھ مئی سن 2018 کو امريکا نے يکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ايران پر اقتصادی پابندياں بحال کر ديں۔ روايتی حريف ممالک ايران اور امريکا کے مابين کشيدگی کی تازہ لہر کا آغاز در اصل اسی پيش رفت سے ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
ايران کی بے بسی اور پھر جوہری ڈيل سے دستبرداری
آنے والا وقت ايرانی اقتصاديات کے ليے بے حد مشکل ثابت ہوا۔ افراط زر اور ديگر معاشی مسائل کے سائے تلے دباؤ کی شکار تہران حکومت نے رواں سال مئی کے اوائل ميں اعلان کيا کہ آٹھ مئی کو ايران اس ڈيل سے دستبردار ہو رہا ہے۔ اس پيشرفت کے بعد ڈيل ميں شامل ديگر فريقين نے ايران پر زور ديا کہ ڈيل پر عملدرآمد جاری رکھا جائے تاہم تہران حکومت کے مطابق امريکا پابنديوں کے تناظر ميں ايسا ممکن نہيں۔
امريکی قومی سلامتی کے مشير جان بولٹن نے پانچ مئی کو اعلان کيا کہ محکمہ دفاع کی جانب سے ’يو ايس ايس ابراہم لنکن‘ نامی بحری بيڑہ اور بمبار طيارے مشرقی وسطی ميں تعينات کيے جا رہے ہيں۔ اس اقدام کی وجہ مشرق وسطی ميں ’پريشان کن پيش رفت‘ بتائی گئی اور آئندہ دنوں ميں پيٹرياٹ ميزائل دفاعی نظام اور بی باون لڑاکا طيارے بھی روانہ کر ديے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Mass Communication Specialist 3r/U.S. Navy/AP/dpa
سعودی تنصيبات پر حملے، ايران کی طرف اشارے مگر تہران کی ترديد
متحدہ عرب امارات سے متصل سمندری علاقے ميں دو سعودی آئل ٹينکروں کو بارہ مئی کے روز حملوں ميں شديد نقصان پہنچا۔ يہ حملے فجيرہ کے بندرگاہی شہر کے قريب ہوئے جو آبنائے ہرمز کے قریب ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ ايران يہ کہتا آيا ہے کہ امريکی جارحيت کی صورت ميں وہ آبنائے ہرمز بند کر دے گا۔ يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ايران نے سعودی آئل ٹينکروں پر حملے کو ’قابل مذمت اور خطرناک‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
مسلح تنازعے سے بچاؤ کے ليے سفارت کاری
تيرہ مئی سن 2019 کو جوہری ڈيل ميں شامل يورپی فريقين نے امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو سے ملاقات کی۔ برطانيہ نے ’حادثاتی طور پر جنگ چھڑ جانے‘ سے خبردار بھی کيا۔ ايک روز بعد ہی پومپيو نے کہا کہ امريکا بنيادی طور پر ايران کے ساتھ جنگ کا خواہاں نہيں۔ پھر ايرانی سپريم ليڈر آيت اللہ خامنہ ای نے بھی کشيدگی ميں کمی کے ليے بيان ديا کہ امريکا کے ساتھ جنگ نہيں ہو گی۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
امريکا ايران کشيدگی، عراق سے متاثر
اس پيش رفت کے بعد پندرہ مئی کو امريکا نے عراق ميں اپنے سفارت خانے ميں تعينات تمام غير ضروری عملے کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کر ديے۔ اس فيصلے کی وجہ ايران سے منسلک عراقی مليشياز سے لاحق خطرات بتائی گئی۔ جرمنی اور ہالينڈ نے بھی عراقی فوجيوں کی تربيت کا عمل روکنے کا اعلان کر ديا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
امريکی صدر کی اب تک کی سخت ترين تنبيہ
انيسی مئی کو امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ايک بيان ميں ايران کو خبردار کيا کہ امريکی مفادات و امريکا کو کسی بھی قسم کے نقصان پہنچانے کی کوشش کے نتيجے ميں ايرن کو تباہ کر ديا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا، ’’اگر ايران لڑنا چاہتا ہے، تو يہ اس سرزمين کا خاتمہ ہو گا۔‘‘
تصویر: Imago/UPI//Imago/Russian Look
خطے کے معاملات ميں مبينہ مداخلت پر ايران پر کڑی تنقيد
گو کہ پچھلے دنوں دونوں ممالک نے مقابلتاً نرم بيانات بھی ديے اور کشيدگی کم کرنے سے متعلق بيانات سامنے آئے تاہم کشيدگی اب تک برقرار ہے۔ انتيس مئی کو جان بولٹن نے کہا کہ انہيں تقريباً يقين ہے کہ سعودی آئل ٹينکروں پر حملے ميں ايران ملوث ہے۔ اسی روز اسلامی تعاون تنظيم کے اجلاس ميں بھی سعودی وزير خارجہ نے خطے ميں ايرانی مداخلت پر کڑی تنقيد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi
8 تصاویر1 | 8
اس تناظر میں سعودی عرب کے شاہ سلمان نے اسلامی تعاون کی تنظیم کی سمٹ کے شرکاء سے کہا، ''ہم اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان دہشت گردانہ کارروائیوں کا ہدف صرف سعودی بادشاہت اور خلیج کا علاقہ ہی نہیں بلکہ اس طرح عالمی منڈیوں میں تیل کی محفوظ ترسیل کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘
تنظیم کے سیکرٹری جنرل کا موقف
مکہ میں او آئی سی کی سمٹ سے اپنے خطاب میں اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل یوسف بن احمد العثیمین نے کہا، ''سعودی عرب کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا مطلب عرب اور اسلامی دنیا کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا ہو گا۔‘‘ یہ ایک ایسا موقف تھا جس کی اجلاس میں شریک دیگر ریاستوں کی طرف سے تائید بھی کی گئی اور سعودی عرب کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا گیا۔
اس سمٹ میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے شرکت نہ کی اور انقرہ کی نمائندگی ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اولو نے کی جبکہ ایرانی صدر حسن روحانی بھی اس سربراہی کانفرنس میں شریک نہ ہوئے۔
م م / ع ت / اے ایف پی
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔