اسلامی عقائد کی خلاف ورزی،نرم رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ
عنبرین فاطمہ/ نیوز ایجنسیاں
27 دسمبر 2017
تہران پولیس کے مطابق ملک میں نافذ اسلامی قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے بجائے نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے ان کی تعلیم و تربیت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اشتہار
ایرانی دارالحکومت تہران میں خطاب کرتے ہوئے بریگیڈئیر جنرل حُسینی رحیمی کا کہنا تھا،" پولیس کمانڈر کے فیصلے کے مطابق وہ افراد جو اسلامی قوانین و ضوابط پر عمل نہیں کرتے، آئندہ ان کو حراستی مراکز میں نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی کی جائے گی۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب تک 7913 افراد کو مختلف کورسز میں تعلیم دی گئی ہے جبکہ صرف تہران میں ہی سو سے زائد ایسے مراکز قائم کیے گئے ہیں اور ان میں خلاف ورزی کرنے والوں کو تعلیم دی جا رہی ہے۔
اپنے اس بیان میں رحیمی نے یہ واضع نہیں کیا کہ وہ کون سے اسلامی قواعد و ضوابط ہیں جن کی خلاف ورزی پر سزا نہیں دی جائے گی اور نہ ہی یہ واضع کیا کہ یہ نئی ہدایات کب جاری کی گئیں۔
حُسینی رحیمی کا یہ بیان سابقہ جنرل حُسینی ساجدینیہ کے اس اعلان سے یکسر مختلف ہے جس کے مطابق انہوں نے گزشتہ برس اپریل میں کہا تھا کہ سات ہزار سے زائد خفیہ پاسداران اخلاق ،غیر شرعی اور غیر اخلاقی حرکات کی رپورٹنگ پر معمور کیے جا رہے ہیں ۔ یہ خواتین کے غیر اسلامی لباس سے لے کر مختلف معاملات پر نظر رکھیں گے۔
اس طرح کے کیسوں کے حوالے سے بہت کم اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں تاہم 2015 کے اواخر میں تہران ٹریفک پولیس کی جانب سے جاری اعداد وشمار کے مطابق گاڑیوں میں خواتین کے شرعی انداز میں سر نہ ڈھانپنے کے 40 ہزار کیس نمٹائے گئے، جن میں سزا کے طور پر جرمانہ عائد کرنے کے ساتھ ساتھ گاڑی کو عارضی ضبطی بھی شامل تھی۔
ایرانی لڑکیوں کے تنگ، چُست اور رنگا رنگ ملبوسات
انقلاب ایران کے بعد ایک ضابطہٴ لباس بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔ بہت سے لوگ اس کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ اب ایرانی لڑکیوں کے لباس تنگ اور رنگین ہوتے جا رہے ہیں اور وہ حکومتی اداروں کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار نظر آتی ہیں۔
تصویر: IRNA
بال نظر نہ آئیں
ایران میں 1979ء کے بعد سے یہ قانون نافذ ہے کہ خواتین ’مہذب‘ لباس پہنیں گی۔ ضابطہٴ لباس کے مطابق خواتین کے سَر مکمل طور پر ڈھکے ہونے چاہییں، پتلون یا شلوار لمبی ہونی چاہیے اور ممکن ہو تو ملبوسات کے رنگ گہرے اور سیاہ ہونے چاہییں۔
تصویر: Isna
خاموش مزاحمت
گزشتہ سینتیس برسوں سے زائد عرصے سے ایرانی خواتین ضابطہٴ لباس کے خلاف خاموش مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ خواتین اسکارف اور لمبا کوٹ تو پہنتی ہیں لیکن اپنے انداز میں۔ اسکارف کے ساتھ بال بھی نظر آتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
بار بار معائنہ
پولیس کی نظر میں رنگین اور نئے ڈیزائن کے کپڑے ناپسندیدہ ہیں۔ ہر سال موسم گرما میں ایرانی سڑکوں پر ’اخلاقی پولیس‘ کے اہلکاروں کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔ جو بھی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے، اسے روک لیا جاتا ہے۔ اس دوران اکثر بحث و مباحثے کا آغاز ہو جاتا ہے کہ آیا واقعی سب کچھ ضابطہٴ لباس کے عین مطابق ہے۔
تصویر: ISNA
سخت نتائج
اگر ’اخلاقی پولیس‘ مطمئن نہیں ہوتی تو جرمانہ کر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات گرفتار بھی۔ گرفتار ہونے والی خواتین کو تحریری طور پر لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ وہ آئندہ ضابطہٴ لباس کی خلاف ورزی نہیں کریں گی۔
تصویر: FARS
کپڑے رنگین، چُست اور مختصر
متعدد ایرانی لڑکیاں ان حکومتی جرمانوں سے بے خوف نظر آتی ہیں۔ ’اخلاقی پولیس‘ کی مسلسل نگرانی کے باوجود نوجوان لڑکیاں رنگین، چھوٹے اور تنگ لباس پہنے نظر آتی ہیں۔ متعدد ماڈلز سوشل میڈیا میں نئے فیشن کے لباس پیش کرتی ہیں۔
تصویر: Hasan Koleini
دباؤ کے باوجود نئے فیشن
ایرانی ماڈل شبنم مولاوی کی تصویر امریکی فیشن میگزین FSHN کے سرورق پر شائع ہوئی تھی۔ مئی میں اس ماڈل کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس ماڈل پر ’غیراسلامی ثقافت کی تشہیر‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن چند دن بعد ہی اسے ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔
تصویر: fshnmagazine.com
روحانی حکومت اور پردہ
روحانی کی حکومت میں پردے کے معاملے میں نرمی برتے جانے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن نئے فیشن کے کپڑوں کی دلدادہ خواتین کے لیے یہ حکومت بھی ’سخت‘ ثابت ہوئی ہے۔ خواتین نئے فیشن کے ملبوسات پر کوئی سمجھوتہ کرتی نظر نہیں آتیں۔
تصویر: Isna
خالی وعدے
صدر حسن روحانی نے 2012ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ’سڑکوں پر خواتین کو ہراساں‘ کیے جانے کے عمل کا خاتمہ کر دیں گے۔ لیکن ڈریس کوڈ کی نگرانی کے ذمہ دار 20 اداروں میں سے چند ہی ان کے کنٹرول میں ہیں۔
تصویر: FARS
خفیہ اخلاقی پولیس
اب تہران حکومت نے ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ بھی متعارف کروا دی ہے۔ رواں برس اپریل میں تہران پولیس کے سربراہ نے کہا تھا کہ سات ہزار خواتین اور مردوں کو بھرتی کیا گیا ہے، جو ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ کا کردار ادا کریں گے۔
تصویر: cdn
انٹرنیٹ پر یکجہتی
جولائی میں سوشل میڈیا پر ایرانی نوجوان مردوں کی طرف سے خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک مہم کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ ضابطہٴ لباس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نوجوان لڑکوں نے اپنے سروں پر اسکارف لے کر تصاویر پوسٹ کرنا شروع کر دی تھیں۔