پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی اسلامی ممالک کی اتحادی فوج کے وفد کے ساتھ آمد پر ملک کے کئی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہورہی ہیں اور کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ آمد ایران مخالف اتحاد کی تشکیل کا حصہ ہوسکتی ہے۔
اشتہار
اطلاعات کے مطابق وفد آج پیر 11 فروری کو اسلام آباد پہنچا ہے اور یہ منگل تک ملک میں قیام کرے گا۔ دورانِ قیام وفد نے ملکی فوج کے سربراہ سے ملاقات کی ہے۔ یہ وفد پاکستان کی سیاسی قیادت سے بھی ملاقات کرے گا۔ یہ ملاقاتیں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ سے پہلے ہو رہی ہے، اس لیے ملک کے کئی حلقے اس کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وفد کی آمد کا تعلق خطے میں ہونے والی ممکنہ ایران مخالف سرگرمیوں سے ہو سکتا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سنٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر پروفیسر سرفراز خان کے خیال میں سعودی عرب دنیا بھر میں مختلف ممالک کو ایران کی مخالفت کرنے پر راضی کر رہا ہے اور یہ دورہ بھی اسی مہم کا حصہ ہو سکتا ہے: ’’سعودی عرب کی ایران کے ساتھ سخت مخاصمت ہے۔ وہ یمن، شام، عراق اور لبنان میں ایران کے خلاف کام کر رہا ہے۔ اپنے ملک میں بھی شیعہ آبادی کے خلاف سخت اقدامات کر رہا ہے اور بحرین میں تو اس نے فوج بھی استعمال کی۔ اب قوی امکان ہے کہ وہ پاکستان کو بھی قائل کرے گا کہ وہ ایران مخالف اتحاد کا حصہ بنے۔‘‘
واضح رہے نواز شریف کے دورِ حکومت میں پاکستان نے یمن کے مسئلے پر سعودی عرب سے اتحاد کرنے سے معذوری ظاہر کر لی تھی اورپارلیمنٹ نے ایک مشترکہ قرار داد کے ذریعے یمن میں لڑائی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ نون لیگ کے ایک رہنما نے تو یہ بھی کہا تھا کہ سعودی ناراضی بھی نواز شریف کے زوال کا ایک سبب تھی۔
تاہم پروفیسر سرفراز خان کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ کی اس قرار داد کے باوجود کچھ عناصر پاکستان کو ایران مخالف سرگرمیوں کا حصہ بنانا چاہتے ہیں: ’’سعودی عرب نے پاکستان میں وہابی اسلام کو پھیلانے کے لیے مدارس قائم کیے۔ پاکستان سے کچھ لوگ شام لڑنے کے لیے بھی گئے تھے۔ یہ طبقہ اور کچھ ریاستی عناصر چاہتے ہیں کہ پاکستان ایران اور سعوی عرب کے درمیان ہونے والی مخاصمت کا حصہ بنے لیکن عوام کی اکثریت اس کے خلاف ہے۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان کو اس وقت سخت معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ ملک کو فوری طور پر تقریباﹰ بارہ بلین ڈالرز چاہییں۔ ریاض اور ابوظہبی نے اسلام آباد کو حال ہی میں اربوں ڈالرز دیے ہیں ۔ اس کے علاوہ ملک میں سرمایہ کاری کے وعدے بھی کیے گئے ہیں۔ لیکن کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سرمایہ کاری کے چکر میں ہمیں اپنے سماجی ڈھانچے کو تباہی کی طرف نہیں لے کر جا نا چاہیے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کے خیال میں کسی بھی جنگ کا حصہ بننے سے پاکستان کا سماجی ڈھانچہ تباہ ہوجائے گا: ’’ایک طرف سعودی عرب گوادر میں سرمایہ کاری کر کے ایران کی سرحد کے قریب ہونا چاہتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد اسلامی ممالک کا اتحاد یہاں اپنی فوجیں بھیج سکتا ہے، جس کی باگ دوڑ سعودی عرب کے پاس ہوگی۔ تو ایران کو دونوں طرف سے گھیرا جائے گا۔ ہمیں ان تمام معاملات سے دور رہنا چاہیے کیونکہ ہماری سعودی نواز پالیسی کی وجہ سے تہران نئی دہلی کے قریب ہو رہا ہے، جس کا ہمیں نقصان ہوگا۔‘‘
لیکن عسکری حلقوں کا دفاع کرنے والے تجزیہ نگار ان شکوک وشبہات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں پاکستان ایران کے خلاف کبھی نہیں جا سکتا: ’’پاکستانی پارلیمنٹ یمن میں فوج بھیجنے کے خلاف قرار داد منظور کر چکی ہے تو اس دورے کا تعلق ایران یا یمن سے قطعی طور پر نہیں ہے۔ میرے پاس ٹھو س معلومات نہیں ہیں لیکن میرے اندازے کے مطابق سعودی عرب انسدادِ دہشت گردی میں جو ہمیں مہارت حاصل ہے، اس سے استفادہ کرنا چاہتا ہے۔ ممکنہ طور پر وہ چاہتا ہے کہ اس کے افسران کو پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی کے مراکز میں تربیت دی جائے یا آرمی کی تربیتی اکیڈیمیز سے استفادہ کیا جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امریکی انخلاء کے بعد خلا ء پیدا ہوگا: ’’ممکنہ طور پر افغانستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ افغان آرمی حالات کو قابو میں نہیں رکھ سکتی۔ طالبان نے داعش اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کے خلاف بات کی ہے کہ وہ ان کو اپنی سر زمین استعمال نہیں کرنے دیں گے لیکن طالبان کی طاقت پر بھی سوال ہے۔ تو میرے خیال میں اس بات کا امکان ہے کہ اسلامی اتحاد کی فوج کو وہاں پر متعین کیا جائے تاکہ افغانستان میں استحکام رہے اور امن و امان کا سنگین مسئلہ پیدا نہ ہو۔‘‘
بھاری اسلحے کے سب سے بڑے خریدار
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران عالمی سطح پر اسلحے کی خرید و فروخت میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں سب سے زیادہ اسلحہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں درآمد کیا گیا۔
تصویر: Pakistan Air Force
1۔ بھارت
سب سے زیادہ بھاری ہتھیار بھارت نے درآمد کیے۔ سپری کی رپورٹ بھارت کی جانب سے خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan
2۔ سعودی عرب
سعودی عرب دنیا بھر میں اسلحہ خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب کی جانب سے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح 8.2 فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
3۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 4.6 فیصد اسلحہ خریدا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
4۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ چین اسلحہ برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک بھی ہے۔ کُل عالمی تجارت میں سے ساڑھے چار فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 3.7 فیصد بنتے ہیں۔ پاکستان کی طرح الجزائر نے بھی ان ہتھیاروں کی اکثریت چین سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ ترکی
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی اس فہرست میں ترکی واحد ایسا ملک ہے جو نیٹو کا رکن بھی ہے۔ سپری کے مطابق ترکی نے بھی بھاری اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.3 فیصد حصہ درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Ozbilici
7۔ آسٹریلیا
اس فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر ساتواں رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 3.3 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور پاکستان کی طرح عراق کا بھی بھاری اسلحے کی خریداری میں حصہ 3.2 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ پاکستان
جنوبی ایشیائی ملک پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.2 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے سب سے زیادہ اسلحہ چین سے خریدا۔
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے تین فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔