اسلامی نظریاتی کونسل کا فیصلہ، ہندو برادری کا خیرمقدم
عبدالستار، اسلام آباد
29 اکتوبر 2020
پاکستان کی ہندو برادری نے اسلامی نظریاتی کونسل کی اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندو برادری دارالحکومت میں اپنا مندر تعمیر کر سکتی ہے اور یہ کہ یہ کام خلاف شریعت نہیں ہے۔
اشتہار
کونسل نے ہندو برادری کو شمشان گھاٹ قائم کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو اس بات کی بھی اجازت دی ہے کہ وہ سید پورگاؤں میں قائم ہندو مندر اور دھرم شالہ کو کمیونٹی کے حوالے کر دے۔ واضح رہے کہ یہ مندر برسوں سے بند ہے جبکہ دھرم شالہ بھی ہندو کمیونٹی کے پاس نہیں ہے۔
ہندو برادری میں خوشی کی لہر
پاکستان ہندو کونسل کے رہنما ڈاکٹر جے پال نے اسلامی نظریاتی کونسل کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے: ''اس سے پاکسان کا امیج پوری طرح دنیا میں بہتر ہوگا۔ اس سے پہلے بھی حکومت نے کرتار پور کے حوالے سے اچھا فیصلہ کیا اور اب اس نے کمیونٹی سینٹر اور شمشان گھاٹ کی اجازت دے کر پوری ہندو کمیونٹی کا دل جیت لیا ہے۔ اس سے پوری برادری میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔‘‘
تھرپار کر سے تعلق رکھنے والی ہندو سماجی کارکن رادھا بھیل کا کہنا ہے کہ اس سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان قربت بڑھے گیی، ''ہندو اور مسلمانوں کے درمیان آزادی کے بعد مذہبی مقامات کے حوالے سے کچھ تنازعات تھے۔ اس فیصلے سے یہ تنازعات ختم ہوں اور دونوں برادریوں کے درمیان دوریاں ختم ہوں گی۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر پاکستان کے لیے جدوجہد کی۔ ہم اس ملک میں برابری کے حق ہیں۔ اس فیصلے سے ہم بہت خوش ہیں۔ یہ فیصلہ قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کی کڑی ہے۔‘‘
مزید اقدامات کی ضرورت
سندھ ہی سے تعلق رکھنے والے ہندو سماجی کارکن اور سندھ ہاری تحریک کے مرکزی رہنما نولرائے میگھواڑ کا کہنا ہے کہ اس حکومت نے اقلیتوں کے لیے بہت کچھ کیا ہے لیکن اب بھی بہت کام کرنا ہے، ''ہم حکومت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے بہت شکر گزار ہیں۔ انہوں نے قائد کے فرمان کی پیروی کی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تمام پاکستانیوں کو مذہبی آزادیاں ہیں اور آج اس فیصلے سے یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان قائد کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہا ہے۔‘‘
کٹاس راج کے مندر، ایک عظیم ثقافتی ورثہ
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال میں چؤا سیدن شاہ کے نزدیک کوہستان نمک کے سلسلے میں کٹاس نامی گاؤں ہندوؤں کا انتہائی تاریخی اور مقدس مقام ہے، جس کا ذکر تین صدی قبل از مسیح میں لکھی گئی مہابھارت تک میں بھی ملتا ہے۔
تصویر: Ismat Jabeen
ہندو آبادی ناپید
شری کٹاس راج کہلانے والی یہ انتہائی قدیم ہندو مذہبی باقیات چکوال شہر سے قریب تیس کلو میٹر جنوب کی طرف کلر کہار روڈ پر واقع ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل یہاں ہندوؤں کی اچھی خاصی آبادی تھی لیکن انیس سو سینتالیس میں یہاں کے تمام ہندو نقل مکانی کر کے بھارت چلے گئے تھے۔ کٹاس راج ٹیمپل کمپلیکس کے مندروں میں سے رام چندر مندر، ہنومان مندر اور شیو مندر خاص طور پر نمایاں ہیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
متعدد مندروں پر مشتمل کمپلیکس
کٹاس راج ٹیمپل کمپلیکس کوئی ایک مندر نہیں بلکہ کم از کم سات ہندو مندروں سمیت سکھوں کے ساتھ ساتھ بدھ مت کے پیرو کاروں کے مقدس مقامات اور تاریخی عبادت گاہوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے، جس کا انتظام متروکہ وقف املاک بورڈ اور محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کے پاس ہے۔ مذہبی احترام کی وجہ سے مندروں میں داخل ہونے والے سیاحوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ننگے پاؤں اور سر ڈھانپ کر آئیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
ہندو دیوتا شیو کے آنسو
ہندو مذہبی روایات کے مطابق جب شیو نامی دیوتا کی بیوی ستی کا انتقال ہوا تو شیو اتنا روئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک نہ ختم ہونے والی لڑی جاری ہو گئی۔ اس طرح ہندوؤں کے لیے مقدس دو تالاب وجود میں آئے، جن میں سے ایک پشکار (اجمیر میں) ہے اور دوسرا کٹکشا۔ سنسکرت میں کٹکشا کا مطلب آنسوؤں کی لڑی ہے۔ یہی لفظ کٹکشا صدیوں بعد بدلتا بدلتا اب کٹاس بن چکا ہے۔
تصویر: Ismat Jabeen
سب سے اونچے مندر سے نظر آنے والا منظر
شری کٹاس راج کی یہ تصویر وہاں کے سب سے اونچے مندر سے لی گئی ہے، جس میں مرکزی تالاب، اس کے ارد گرد قائم مندر، حویلی، بارہ دری اور پس منظر میں موجود مندر کا مینار تک بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ تصویر کے بائیں کونے میں اوپر کی طرف مقامی مسلمانوں کی ایک مسجد بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک ہندو روایت کے مطابق کوروں کے ساتھ جنگ میں شکست کے بعد پانڈوں نے کٹاس میں بارہ سال گزارے تھے اور متعدد مندر تعمیر کروائے تھے۔
تصویر: Ismat Jabeen
قدرتی چشمے
کٹاس کی شہرت کی ایک بہت اہم وجہ وہ قدرتی چشمے بھی ہیں، جن کے پانیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مل جانے سے گنیا نالہ وجود میں آیا تھا۔ کٹاس راج کے تالاب کی گہرائی تیس فٹ ہے اور یہ تالاب آہستہ آہستہ خشک ہوتا جا رہا ہے۔ شری کٹاس راج کے مندروں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ تالاب کے ارد گرد یا قریب ہی یہ مرکزی مندر اور دیگر عبادت خانے دو دو کے جوڑوں کی شکل میں بنائے گئے ہیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
پہاڑی علاقے میں مندر اور معبد
کوہستان نمک کا پورا علاقہ چھوٹی بڑی پہاڑیوں پرمشتمل ہے، جہاں صدیوں پہلے زیادہ تر ہندو مندر ایسی پہاڑی چوٹیوں پر بنائے گئے کہ ان تک پہنچنے کے لیے بل کھاتی پتھریلی سیڑھیوں کا ایک طویل سلسلہ عبور کرنا پڑتا تھا۔ یہ صورت حال آج تک قائم ہے۔ اس تصویر میں کٹاس راج کا مرکزی مندر اور اس کے قریب ہی دیگر معبد نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
دیواروں پر صدیوں پرانے نقش و نگار
یہ انتہائی خوبصورت نقش و نگار اور تصاویر کے ذریعے رنگا رنگ عکاسی اس حویلی کی اندرونی دیواروں پر نظر آنے والے مناظر ہیں، جو یہاں صدیوں قبل سکھ جنرل ہری سنگھ نلوا نے تعمیر کروائی تھی۔ اس حویلی کے دیوان خانے اور زنان خانے کی باقیات آج بھی حیران کن حد تک اچھی حالت میں موجود ہیں۔ ان قدیم باقیات کے مذہبی دوروں کے لیے آج بھی دنیا بھر سے ہر سال ہزارہا ہندو اور سکھ یاتری کٹاس راج کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
ہندوؤں کا ہاتھی دیوتا گھنیش
جنرل ہری سنگھ نلوا کی طرف سے بنوائی گئی حویلی کے دیوان خانے کی ایک دیوار پر نظر آنے والی ہندوؤں کے ہاتھی دیوتا گھنیش کی ایک تصویر، جس میں گھنیش کو مختلف جانوروں کو کھانے کے لیے کچھ پیش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسی ہر تصویر کسی نہ کسی دیومالائی ہندو مذہبی روایت کی عکاسی کرتی ہے۔ کٹاس راج کے مندروں کی تعمیر میں زیادہ تر چونا استعمال کیا گیا تھا۔
تصویر: Ismat Jabeen
نلوا کی حویلی کے جھروکے
سکھ جنرل نلوا نے کٹاس راج میں جو حویلی تعمیر کروائی، اس کے چند جھروکے آج بھی کافی حد تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ اس تصویر میں دیوان خانے کے ایک جھروکے کی اندرونی دیواروں پر کی گئی رنگا رنگ نقش نگاری اور اس جھروکے سے نظر آنے والا کٹاس راج کا منظر دونوں دیکھے جا سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کٹاس راج کا قدیم ترین اسٹوپا اشوک اعظم نے تعمیر کروایا تھا۔
تصویر: Ismat Jabeen
بیتی صدیوں کے اثرات
اس تصویر میں کٹاس راج کی کئی عمارات بیک وقت دیکھی جا سکتی ہیں، جن میں مندر بھی ہیں،حویلی بھی اور کئی دروازوں والی قیام گاہیں بھی۔ کئی عمارات کے مختلف حصوں کے ارد گرد آہنی جنگلے محکمہ آثار قدیمہ پنجاب نے لگوائے، جن کا مقصد اس عظیم اور تاریخی ورثے کو وقت کے ہاتھوں مزید ٹوٹ پھوٹ سے روکنا تھا۔ اس تصویر میں نظر آنے والی عمارات پر بیتی صدیوں کے گہرے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
مخصوص طرز تعمیر والی بارہ دری
کٹاس راج کی اپنے مخصوص طرز تعمیر اور گنبد والی یہ بارہ دری دیگر مندروں کے مقابلے میں کئی صدیاں بعد تعمیر کی گئی تھی۔ اس لیے اس بارہ دری کی حالت دیگر مندروں اور معبدوں کے مقابلے میں بہت اچھی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق کٹاس راج کے اکثر چھوٹے مندر قریب نو سو برس قبل تعمیر کیے گئے تھے لیکن ان میں سے اولین کی چھٹی صدی عیسوی میں ہندو شاہیہ کے دور میں تعمیر کے شواہد بھی موجود ہیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
مذہبی اہمیت اور عسکری ضرورت
محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق اس تصویر میں سامنے نظر آنے والا مندر بھی قریب نو سو سال قبل لیکن کافی بعد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ لیکن پس منظر میں پہاڑی پر قائم قلعہ نما عمارت اس سے بھی کافی عرصہ قبل تعمیر کی گئی تھی، جو بنیادی طور پر عسکری نوعیت کی ایک عمارت تھی۔ تصویر میں دائیں طرف ایک بدھ اسٹوپا کی طرز پر تعمیر کردہ چھوٹی سی عبادت گاہ اس دور کی تعمیرات پر بدھ مت کے اثرات کا پتہ دیتی ہے۔
تصویر: Ismat Jabeen
اسٹوپا نما مندر میں شیو لِنگ
اس طاقچوں والے اسٹوپا نما مندر میں ہندو دیوتا شیو سے منسوب شیو لِنگ رکھا ہوا ہے، جس کی ہندو پوجا کرتے ہیں۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی انیسویں صدی کے آخر میں تیارکردہ دستاویزات کے مطابق کٹاس راج چھٹی صدی عیسوی سے لے کر بعد کی کئی صدیوں تک ہندوؤں کا ایک انتہائی مقدس مقام تھا۔ تاریخی شواہد موجود ہیں کہ کٹاس راج ان قدیم ہندو مندروں میں سے ایک تھا، جہاں پہلی مرتبہ شیو لِنگ کی پوجا شروع کی گئی تھی۔
تصویر: Ismat Jabeen
مونگے کی چٹانیں اور فوصل شدہ آبی حیات
شری کٹاس راج کے مندروں اور دوسری عمارات کے کئی حصوں میں مونگے کی چٹانوں، جانوروں کی ہڈیوں اور فوصل شدہ آبی حیات کی ایسی قدیم باقیات دیکھی جا سکتی ہیں، جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان صدیوں پرانے آثار کی تعمیر میں سمندری یا دریائی پانی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ کٹاس راج میں اس تصویر میں نظر آنے والے فوصلز کی طرح کے بہت سے قدیم حیاتیاتی نمونے دیکھنے میں آتے ہیں۔
تصویر: Ismat Jabeen
شیو اور ستی کی رہائس گاہ
متعدد ہندو دیو مالائی داستانوں کے مطابق شیو نامی دیوتا نے ستی نامی دیوی کے ساتھ اپنی شادی کے بعد کئی سال کٹاس راج میں ہی گزارے تھے۔ ہندو عقیدے کے مطابق کٹاس راج کے تالاب میں نہانے والوں کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ دو ہزار پانچ میں جب بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن ایڈوانی پاکستان آئے تھے تو انہوں نے خاص طور پر کٹاس راج کی یاترا کی تھی۔
تصویر: Ismat Jabeen
15 تصاویر1 | 15
نولرائے میگھواڑ کا کہنا ہے کہ ابھی بھی بہت سے کام ہونے چاہیں، ''ہنگلاج اور تھرپارکر میں کئی ایسے مندر ہیں، جن پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ شمشان گھاٹ کی بھی کمی ہے۔ مندورں کی تزئین وآرائش کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
شکوہ و شکایات
گھوٹکی سے ہندو کمیونٹی کے نامور رہنما تیکم داس کا کہنا ہے کہ برادری کی زمینوں پر قبضہ ہوا ہے۔ جسے چھڑانا چاہیے: ''گھوٹکی میں ہماری مندر کی زمین پر قبضہ ہوا۔ مقامی انتظامیہ قبضہ گیروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ برادری سے تعاون کرے اور اس قبضے کو چھڑائے۔‘‘
ڈاکٹر جے پال کہنا تھا کہ آئین میں ایسی شقیں ختم کی جائیں، جن میں یہ کہا گیا ہے کہ اہم عہدے اقلیتوں کو نہیں مل سکتے: ''اس کے علاوہ سندھ میں سادھو بیلا کے مندر کو سہولیات فراہم کی جائیں۔ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین کسی ہندو کو بنایا جائے کیونکہ وہ اس حوالے سے بہتر کام کر سکتا ہے اور بالجبر تبدیلی مذہب کو روکا جائے۔‘‘