1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد: اقتدار کے لیے جوڑ توڑ اور سیاسی مشاورتیں

عبدالستار، اسلام آباد
10 فروری 2024

انتخابات اور ووٹوں کی گہما گہمی ختم ہو گئی ہے اور اب ملک کے دیگر بڑے شہروں کی طرح اسلام آباد میں بھی سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاستدان آپس میں رابطے کر رہے ہیں تاکہ آئندہ حکومت تشکیل دی جا سکے۔

Kombobild | Pakistanische Politiker von links nach rechts: Maryam Nawaz, Shehbaz Sharif, Imran Khan, Nawaz Sharif, Bilawal Bhutto Zardari und Asif Ali Zardari

پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن اور دیگر جماعتیں سیاسی مشاورت، اجلاسوں اور سیاسی بات چیت میں مصروف نظر آتے ہیں تاکہ وہ اقتدار میں اپنے حصے کے لیے مختلف فیصلے کر سکیں۔

ہم لڑنا نہیں چاہتے، مل کر حکومت بنائیں گے: نواز شریف

پاکستانی انتخابات: عالمی تحفظات، آرمی چیف کی مبارکباد

’پی ٹی آئی کو بیساکھی کی ضرورت نہیں‘

انانتخابات میں پاکستان تحریک انصاف ابھی تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جن حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے اگر ان کے نتائج بھی پارٹی کے حق میں ہو جائیں، تو پارٹی کو اچھی خاصی اکثریت حاصل ہو جائے گی اور اسے کسی کی بیساکھی کی ضرورت نہیں رہے گی۔

انتخابات سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی یہ کوشش کر رہی تھی کہ اس مرتبہ بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچایا جائےتصویر: DW

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور عمران خان کی لیگل ٹیم کے رکن شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے صلاح مشورے جاری ہیں: ''ہماری قانونی ٹیم نے آج عمران خان سے ملاقات کی ہے اور مستقبل کی حکومت کی تشکیل اور دوسرے معاملات کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ لاہور، اسلام آباد اور دوسرے شہروں میں بھی پارٹی میں مشاورت چل رہی ہے۔‘‘

مسلم لیگ نواز 'اِن ایکشن‘

پاکستان مسلم لیگ نواز جس کے پاس ابھی تک واضح برتری نہیں ہے وہ بھی اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح ایوان اقتدار تک پہنچے۔ پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کی تشکیل کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ایک رہنما اور سابق گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا ہے کہ پارٹی تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابھی تک کے نتائج کے مطابق ہمیں اچھی خاصی سیٹیں حاصل ہیں لیکن یقینا ہمارے پاس اکثریت نہیں ہے۔ تو ہم جمعیت علمائے اسلام، نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور دوسری جماعتوں سے رابطے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یقیناﹰ اپنے اتحادیوں کی مدد سے ہم حکومت بنانے کی کوشش کریں گے۔‘‘

عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف ابھی تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری ہے۔ تصویر: Muhammad Reza/AA/picture alliance

پی پی پی بھی دوڑ میں شامل

انتخابات سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی یہ کوشش کر رہی تھی کہ اس مرتبہ بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچایا جائے لیکن انتخابی نتائج سے یہ بات واضح ہے کہ پیپلز پارٹی ایوان میں تیسری بڑی جماعت ہے اور اکثریت سے اچھی خاصی دور ہے۔ تاہم وہ بھی یہ کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح وفاق اور سندھ میں حکومت بنائے اور  دوسرے صوبوں میں بھی اسے وزارتوں میں حصہ ملے۔

پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سابق صدر آصف علی زرداری نے پارٹی رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ نیر بخاری، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور دوسرے رہنماؤں سے صلاح مشورے کیے ہیں۔‘‘

اس رہنما کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی کوشش تو یہی ہوگی کہ وہ مرکز میں دوسرے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائے:   ''لیکن کیونکہ یہ بظاہر ممکن نظر نہیں آتا اس لیے اگر وہ ن لیگ کے ساتھ حکومت بنائے گی تو پارٹی ممکنہ طور پر صدارت اور وفاقی حکومت میں وزارتیں طلب کرے گی تاکہ عوام کی خدمت کی جا سکے جبکہ بلوچستان اور پنجاب میں بھی پارٹی مختلف وزارتیں طلب کر سکتی ہے۔‘‘

آزاد ممبران اسمبلی کیا حکمت عملی بنائیں گے؟

04:44

This browser does not support the video element.

’زیرک سیاست دان‘ بھی میدان میں

جمیعت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن کو سیاسی مذاکرات کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے اور ماضی میں انہوں نے اپنی سیاسی حیثیت سے بڑھ کر وزارتوں اور اقتدار میں حصہ طلب کیا ہے۔ جمیعت علمائے اسلام کے ایک رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اگلی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے صلاح و مشورے کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جے یو آئی ایف ماضی میں بھی حکومت کا حصہ رہ چکی ہے اور یقیناﹰ ابھی بھی مولانا فضل الرحمٰن یہ کوشش کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ نواز سے معاملات حل کیے جائیں اور حکومت میں شراکت داری کی جائے۔ ممکنہ طور پر وہ نواز شریف اور آصف زرداری سے آنے والے دنوں میں ملاقاتیں کریں گے۔‘‘

حافظ حسین احمد کے مطابق ماضی میں مسلم لیگ ن کے ساتھ حکومت کرنے کا تجربہ تلخ رہا ہے: ''لیکن اس مرتبہ ہماری نشستیں زیادہ نہیں۔ پھر بھی جماعت کوشش کرے گی کہ وہ اقتدار میں حصہ لے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں