اسلام آباد میں پہلی عالمی جنگ میں حصہ لینے والے مقامی فوجیوں کے اعزاز میں بنائی گئی ایک جنگی یادگار ایک ہاؤسنگ پراجیکٹ کی زد میں آ کر مسمار ہونے کو ہے۔ کئی حلقے اس تاریخی ورثے کو مٹانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
یہ یادگار برطانوی سلطنت نے انیس سو چودہ کے بعد مقامی فوجیوں کی یاد میں تعمیر کروائی تھیتصویر: Usman Cheema/DW
اشتہار
تفصیلات کے مطابق، یہ یادگار برطانوی سلطنت نے انیس سو چودہ کے بعد ان مقامی فوجیوں کی یاد میں اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تعمیر کی تھی جو پہلی عالمی جنگ میں لڑے تھے۔ یہ یادگار کُری روڈ پر واقع ہے لیکن اب کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ایک مشترکہ ہاؤسنگ منصوبے کی وجہ سے مسمار ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔
دونوں اتھارٹیز نے حال ہی میں اس مقام پر ایک نیا ہاؤسنگ منصوبہ شروع کیا ہے جہاں یہ یادگار واقع ہے۔ پاکستان میں یہ کوئی نئی بحث نہیں کہ حکام تاریخ کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو دی جانی چاہیے۔ اس یادگار کے انہدام کے منصوبے نے اس بحث کو ایک بار پھر ہوا دی ہے۔ خاص طور پر ان حلقوں میں جو ملک میں تاریخی ورثے کے تحفظ کی حمایت کرتے ہیں۔
پاکستان کا عالمی ثقافتی ورثہ
ٹیکسلا کے مقام پر دھرماراجیکا استوپ بدھ مت کی تاریخی باقیات پر مشتمل ایک ایسا کمپلیکس ہے، جو ایک بہت بڑے اسٹوپا اور کئی دیگر تعمیرات پر مبنی ہے۔ یہ کمپلیکس یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ڈھائی ہزار سال قدیم خانقاہ
دھرماراجیکا ٹیکسلا اورخان پور کے قریب بدھ مت کی سب سے پرانی اور بڑی خانقاہ ہے، جو ماضی کی دھرم ندی کے کنارے واقع ہے۔ یہ خانقاہ مہاتما بدھ کی راکھ پر موریہ خاندان کے مہاراجہ اشوک نے تعمیر کروائی تھی۔ مہاراجہ اشوک بدھ مت کے لیے اپنی خدمات کی وجہ سے دھرماراجہ کہلاتے تھے۔ اسی لیے یہ خانقاہ بھی دھرماراجیکا کہلائی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
وسیع و عریض قطر والا استوپ
دھرماراجیکا کے بہت بڑے اور گول اسٹوپا کا قطر ایک سو اکتیس فٹ اور گنبد کی اونچائی پینتالیس فٹ ہے، جو اپنی تعمیر کے دوران اندر سے چنا گیا تھا۔ اس میں پہلے انیس سو بارہ سے لے کر انیس سو چودہ تک برطانوی ماہر آثار قدیمہ سر جان مارشل کی زیر نگرانی کھدائی کی گئی۔ اس کے بعد بہت سے نئے حقائق منظر عام پر لانے والی کھدائی برطانوی نوآبادیاتی دور ہی میں انیس سو بتیس سے لے کر انیس سو چونتیس تک کی گئی تھی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسٹوپا کی سیڑھیاں
دھرماراجیکا میں کھدائی سے پتہ چلا کہ ابتدا میں یہ ایک قدرے چھوٹا اسٹوپا تھا لیکن بعد میں اس کو چھ مختلف مراحل میں وسیع کیا گیا۔ اسٹوپا کی بہت عمدہ سیڑھیاں بنائی گئیں، جو خستہ ہو جانے کے باوجود ابھی تک موجود ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
دھرماراجیکا کمپلیکس
دھرماراجیکا کمپلیکس یعنی خانقاہ وہاں موجود عظیم تر اسٹوپا کے شمال اور شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہاں کی متعدد قدیم عمارات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح یہاں بتدریج ترقی ہوئی اور مسلسل رد و بدل کے نتیجے میں اپنے مخصوص گندھارا طرز کی بہت سی خانقاہیں وجود میں آئیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پوری انسانیت کی ثقافتی میراث
دھرماراجیکا انیس سو اسی سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فیرست میں شامل ہے۔ اس طرح ان شاندار تاریخی باقیات کو یونیسکو کے ایک کنونشن کے تحت تحفط حاصل ہے۔ یونیسکو کی طرف سے دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود صرف ان قدیم باقیات کو ورلڈ ہیریٹیج لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے، جنہیں مشترکہ طور پر پوری انسانیت کی میراث سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
عبادت گاہیں اور مجسمے
اس تصویر میں نظر آنے والی باقیات ایک عبادت گاہ میں موجود وہ صدیوں پرانے بدھ مجسمے ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ ٹوٹ چکے ہیں۔ عشروں پہلے ان باقیات کے سامنے آہنی جنگلے لگا دیے گئے تھے تاکہ انہیں مزید ٹوٹ پھوٹ سے بچایا جا سکے۔ دھرماراجیکا میں قائم عبادت گاہیں انسانی اور حیوانی مجسموں سے آراستہ ہیں۔ مستطیل شکل کے مندر چونے اور مٹی سے بنے ہوئے مہاتما بدھ کے بڑے بڑے بتوں کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
مہاتما بدھ کا ٹوٹا ہوا مجسمہ
پانچویں صدی کے آخر میں آنے والی سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کی وجہ سے ٹیکسلا کا یہ علاقہ بھی متاثر ہوا۔ یوں نہ صرف تجارت متاثر ہوئی اور تجارتی راستے اجڑ گئے بلکہ معاشی خوشحالی بھی قریب قریب ختم ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی دھرماراجیکا، مہاتما بدھ کے مجسمے اور اتنی بڑی بڑی خانقاہیں، سبھی کچھ شاہی سرپرستی سے محروم ہو گیا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اشوکا کی سلطنت
اس تصویر میں دھرماراجیکا میں مہاتما بدھ کے ایک بہت ہی دراز قد مجسمے کا ایک پاؤں دیکھا جا سکتا ہے۔ اب یہ پورا مجسمہ تو باقی نہیں البتہ اس کے دونوں پاؤں ابھی تک موجود ہیں۔ موریہ بادشاہ اشوکا نے اپنی پوری سلطنت میں کُل آٹھ مقامات پر ایسے اسٹوپا بنوائے تھے، جن میں گوتم بدھ کے تھوڑے تھوڑے تبرکات محفوظ کر دیے گئے تھے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
جگہ جگہ سانس لیتی قدیم تہذیب
دھرماراجیکا استوپ کمپلیکس میں ایک دوسرے کے قریب موجود بےشمار تاریخی باقیات اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ ان آثار کا ماضی کتنا شاندار تھا اور وہ اپنے اندر کس عظیم تہذیب کی نشانیاں لیے ہوئے ہیں۔ پاکستانی حکومت ان قدیم باقیات کی حفاظت کو اتنی اہمیت دیتی ہے کہ قانون کے مطابق اس عظیم عالمی ورثے کو کسی بھی طرح کوئی نقصان پہنچانے والے کو طویل قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
دھرماراجیکا میں تالاب
ماضی میں مذہبی اہمیت کا حامل یہ مقام ایک ایسا روحانی مرکز تھا، جہاں عبادت گزاروں اور زائرین کے لیے ضرورت کی ہر سہولت موجود تھی۔ ماہرین آثار قدیمہ عشروں پہلے سے اس بارے میں متفقہ رائے کے حامل ہیں کہ دھرماراجیکا میں باقاعدہ طور پر بدھ بھکشوؤں کے لیے رہائش گاہیں، پانی کے تالاب اور آٹا پیسنے تک کی جگہیں بھی بنائی گئی تھیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسٹوپا پر پتھروں کی اعلیٰ تراش
اس تصویر کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہزاروں سال پہلے یہ مجسمہ کس شان و شوکت اور تکریم کا محور رہا ہو گا۔ اس اسٹوپ کے گرد طواف کا راستہ پتھر کی سلوں سے مزین ہے۔ اسٹوپ کو انیس سو چالیس کے زلزلے سے شدید نقصان پہنچا تھا مجموعی طور پر کئی مرتبہ اس کی مرمت کی جا چکی ہے۔ ان باقیات میں پتھروں کو تراش کر مہاتما بدھ اور ان کی زندگی کے مختلف واقعات کے مناظر اسٹوپ کے اردگرد نصب کیے گئے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسٹوپا کے گرد گول منتی اسٹوپے
منتی استوپوں سے سونے، پتھر اور ہاتھی دانت سے بنائی گئی تبرکات کی ڈبیوں کے علاوہ ساکا حکمرانوں کے دور کے سکے بھی ملے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ مٹی کی مہریں بھی ملی ہیں جن پر بدھ مت کے عقائد درج ہیں۔ انہی بیش قیمت آثار کے باعث گندھارا تہذیب میں دھرماراجیکا کی اپنی ہی ایک بے مثال اہمیت ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
قدیم علوم کی تعلیم
اسٹوپا کے ارد گرد صحن میں متعدد چھوٹے استوپوں کا تعلق پہلی صدی قبل مسیح سے ہے جبکہ مستطیل اور مربع شکل کی عبادت گاہوں کا تعلق تیسری اور پانچویں صدی سے ہے۔ ہزاروں سال قبل ٹیکسلا کی ان قدیم بدھ درس گاہوں میں بھکشو عبادت میں محو رہتے تھے اور ساتھ ہی تاریخ، منطق، اخلاقیات اور رقص و موسیقی کی تربیت حاصل کرتے تھے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
13 تصاویر1 | 13
یہ یادگار کُری روڈ کے ساتھ واقع ہے، جو کبھی ایک دور افتادہ یا دیہی علاقہ تھا کیونکہ اس علاقے میں زیادہ آبادی نہیں تھی اور ایک واحد سڑک مختلف مقامی دیہات کو آپس میں جوڑتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ، کئی ہاؤسنگ منصوبوں کی وجہ سے یہ علاقہ گنجان آباد ہو گیا اور وہ یادگار جو کبھی ایک سنسان مقام پر مقامی سڑک کے کنارے تھی، اب ہاؤسنگ سوسائٹیز کے لیے ایک پریشانی کا باعث بن گئی ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی تاریخی یادگار کو تباہی کا سامنا ہے بلکہ ماضی میں بھی کئی بار ایسا ہو چکا ہے اور نہ ہی پاکستانی حکومت اور نہ ہی برطانوی حکومت نے کبھی ان علامتڈی ایچ اے فراڈ کیس، سابق آرمی چیف کے بھائی کے خلاف تحقیقاتی مقامات کے بارے میں پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
ڈی ایچ اے فراڈ کیس، سابق آرمی چیف کے بھائی کے خلاف تحقیقات
راولپنڈی اسلام آباد کے بارے میں ایک تاریخی کتاب راول راج کے مصنف سجاد اظہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کری روڈ والا مونومنٹ پہلی عالمی جنگ کی یاد گار ہے اور یہ مانومنٹ برٹش راج کی جانب سے مقامی افراد کی قربانیوں اور بہادری کے صلے کے طور پر بنایا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے درجنوں مونومنٹ پوٹھوہار کے مختلف دیہات میں موجود ہیں جن کی ایک بڑی تعداد راولپنڈی اسلام آباد کے دیہی علاقوں میں بھی ہے. یہ ہماری تاریخ کے ایک اہم ترین حصے یعنی ’’نوآبادیاتی دور‘‘ کی ترجمانی کرتے ہیں مگر ان کی حفاظت کے لیے نہ تو پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ نے کبھی دلچسپی لی ہے اور نہ ہی برٹش ہائی کمیشن نے کبھی ان کی خبر لی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’برٹش گورمنٹ راولپنڈی میں صرف گورا قبرستان کی دیکھ بھال کرتی ہے. برطانیہ اور پاکستان دونوں کی عدم توجہی کی وجہ سے اب ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ایسے ہی کئی مونومنٹ ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کے اندر آ چکے ہیں جنہیں مسمار کر دیا گیا تھا تاہم اس کا نوٹس کسی ادارے نے نہیں لیا۔‘‘
کئی ہاؤسنگ منصوبوں کی وجہ سے یہ علاقہ گنجان آباد ہو گیا ہےتصویر: Usman Cheema/DW
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ صرف تاریخ اور ورثے کو اہمیت دینے کا معاملہ ہے، ورنہ ان مقامات کو گرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں منصوبوں کا حصہ بھی بنایا جا سکتا ہے اور یہ ان کی خوبصورتی میں اضافہ کریں گے اور کسی بھی ہاؤسنگ پراجیکٹ کی خوبصورتی میں کمی کا باعث نہیں بنیں گے۔ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے اکاؤنٹ منجمد
کیا یادگار کو کہیں منتقل بھی کیا جا سکتا ہے؟
بعض ذرائع کے مطابق سی ڈی اے میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ اس یادگار کو کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے، لیکن محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ یادگاریں مخصوص مقامات کے لیے بنائی جاتی ہیں اور انہیں اس علاقے کے ان افراد کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا جنہوں نے پہلی عالمی جنگ میں حصہ لیا تھا۔
گورگھٹڑی: پشاور کی تاریخی اور پرشکوہ عمارت
05:42
This browser does not support the video element.
اُدھر ڈاکٹر محمود الحسن، جو کہ ایک معروف ماہر آثار قدیمہ ہیں، کا کہنا ہے کہ اس یادگار کو کسی اور جگہ منتقل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سے اس کی تاریخی اہمیت ختم ہو جائے گی، لیکن اسے منصوبے کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ دونوں اتھارٹیز، جو اس علاقے میں مشترکہ طور پر ہاؤسنگ منصوبہ تعمیر کر رہی ہیں، کو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے۔
چونکہ سی ڈی اے اور ڈی ایچ اے اس ہاؤسنگ منصوبے میں شراکت دار ہیں جو اس مقام پر بنایا جا رہا ہے جہاں یادگار موجود ہے، ڈی ڈبلیو نے اس معاملے پر مؤقف جاننے کے لیے بطور مرکزی شراکت دار سی ڈی اے سے رابطہ کیا تاہم بارہا کوششوں کے باوجود سی ڈی اے نے کوئی جواب نہیں دیا۔