پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ تین ہفتوں سے جاری دھرنے کے خاتمے کے لیے پولیس نے اپنی کارروائی شروع کر دی ہے۔ اس موقع پر مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں بھی جاری ہیں۔
اشتہار
اسلام آباد شہر کے ایک اہم داخلی راستے فیض آباد میں گزشتہ بیس روز سے ایک مذہبی جماعت نے دھرنا دے رکھا تھا۔ حکام کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ مقامی انتظامیہ نے اس دھرنے کے شرکاء کو پرامن انداز سے منتشر ہونے کی ہدایات دی تھیں اور خبردار کیا تھا کہ بہ صورت دیگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔
گزشتہ نصف شب کو پوری ہونے والی اس ڈیڈلائن نظرانداز کر دیے جانے کے بعد ہفتے کی صبح پولیس نے مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول سے وابستہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا۔
ایک سینیئر پولیس افسر عصمت اللہ جونیجو نے بتایا کہ اس دھرنے میں قریب تین سو افراد شامل تھے، جن کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسوگیس کا استعمال کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کارروائی میں شریک پولیس اہکاروں کو ہتھیار نہیں دیے گئے ہیں اور وہ فقط آنسوگیس یا پانی کی تیز دھاروں کا استعمال کر رہے ہیں۔
اسلام آباد کا ریڈ زون، چار روزہ دھرنے کا نتیجہ
پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کے خلاف ممتاز قادری کے چہلم کے بعد پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا چار روز تک جاری رہا، چند تصویری جھلکیاں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پھول اور پودے بھی محفوظ نہ رہے
اس دھرنے کے دوران اسلام آباد میں موبائل فون سروس زیادہ تر معطل رہی جب کہ مشتعل مظاہرین نے سڑکوں پر لگائے گئے پودوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ گزشتہ چار دنوں کے دوران دھرنے کی جگہ پر بار بار بدامنی کے متعدد واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
املاک کا نقصان
ممتاز قادری کو دی جانے والی پھانسی پر اس کے چہلم کے بعد اس دھرنے کے دوران پرتشدد احتجاج کرنے والے مظاہرین نے سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔ ماہرین کے مطابق مجموعی مالی نقصانات کی مالیت کروڑوں میں رہی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
میٹرو اسٹاف تباہ
دھرنے کے دوران مظاہرین نے میٹرو بس سسٹم کے ایک اسٹاپ کو بھی شدید نقصان پہنچایا اور بے تحاشا توڑ پھوڑ کی۔ اس میٹرو سسٹم کا راولپنڈی اسلام آباد میں افتتاح ابھی کچھ عرصہ قبل ہی کیا گیا تھا۔ اس منصوبے پر مجموعی طور پر اربوں روپے کی مجموعی لاگت آئی تھی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
موٹر سائیکل نذر آتش
پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب میٹرو بس کا اسٹاپ جس کے باہر بپھرے ہوئے مظاہرین نے متعدد موٹر سائیکلوں کو آگ بھی لگا دی تھی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
مظاہرین کی گرفتاریاں
دھرنے کے دوران حالات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں نے وہاں نئے پہنچنے والے مظاہرین کو روکنے، واپس بھیجنے یا حراست میں لینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اس تصویر میں حراست میں لیے گئے چند مظاہرین کو پولیس کی ایک گاڑی میں سوار کرایا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بھاری نفری مگر حالات بے قابو
چار روزہ دھرنے کے دوران امن عامہ کی صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی، لیکن حالات قانون نافذ والے اداروں کے اہلکاروں کے کنٹرول میں تمام وقت نہ رہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
عمارتیں خالی
حکام نے اس دھرنے کے دوران احتیاطی طور پر کئی اہم قریبی عمارتوں کو خالی بھی کرا لیا تھا۔ لیکن پھر بھی جو نئے مظاہرین ڈی چوک میں دھرنا دینے والے اپنے ساتھیوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے، انہیں حراست میں لے لیا جاتا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
عجیب منظر پیش کرتا ڈی چوک
ڈی چوک میں جمع مظاہرین کے چار روزہ قیام سے اس مقام پر حفظان صحت اور صفائی کی عموعمی صورت حال بھی کافی خراب رہی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
موبائل فون سروس معطل
مظاہریں کئی بار موبائل فون سروس معطل رہنے کے باوجود آپس میں اور اپنے اقربا کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے بجلی کی پاور لائنز کے ذریعے اپنے موبائل فون براہ راست چارج کرنے کا راستہ بھی نکال لیا تھا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
9 تصاویر1 | 9
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مزاحمت کرنے والے درجنوں مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے، جب کہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ مظاہرین کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ اور پولیس کے لاٹھی چارج کے نتیجے میں متعدد مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں، جنہیں مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس دھرنے کے خاتمے کے لیے متعدد مرتبہ کوشش کی گئی، تاہم یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچی۔ یہ مظاہرین ایک پارلیمانی بل سے پیغمبراسلام سے متعلق ایک حوالہ حذف کرنے پر وزیرقانون زاہد حامد کے استعفے کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے تھے۔
زاہد حامد نے پارلیمانی بل میں پیغمبر اسلام کی بابت ’آخری رسول‘ کے الفاظ نہ لکھنے پر معذرت کی تھی اور کہا تھا کہ ایسا فقط ’دفتری غلطی‘ کے باعث ہوا، جسے بعد میں درست کر دیا گیا۔
تاہم اس دھرنے کے رہنماؤں نے یہ معذرت قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے زاہد حامد کے استعفے تک دھرنا جاری رکھنے کے اعلان کیا تھا۔ ہفتے کے روز یہ پولیس کارروائی عدالتی احکامات کے تناظر میں کی گئی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ دھرنے کی وجہ سے اسلام آباد کے شہریوں کے معمولات زندگی متاثر ہو رہے ہیں۔