اسلام آباد دھماکے: 60 افراد ہلاک اور 200 زخمی
21 ستمبر 2008اسلام آباد کے پمز اور پولی کلینک میں موجود درجنوں زخمیوں کی تعداد کے پیشِ نظر ہلاک شدگان کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
میریٹ ہوٹل کے مالک صدرالدین ہاشوانی کے بقول ہوٹل کے گیٹ پر سیکورٹی گارڈز نے مشتبہ ٹینکر ٹرک کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر ٹرک میں موجود مشتبہ خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکہ سے اڑا دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہوٹل مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔
اس سے پہلےاسلام آباد پولیس کے سربراہ اصغر رضا گردیزی نے پچاس ہلاکتوں اور دو سو افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔میریٹ ہوٹل سے تقریبا پانچ سو میٹر کے فاصلے پر وزیر اعظم ہاؤس ہے اور دیگر اعلیٰ حکومتی اورسفارتی نوعیت کے دفاتر واقع ہیں۔
اِس موقع پر میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوے وفاقی مشیر داخلہ رحمان ملک نے اس واقعہ میں ملوث ہونے کے حوالے سے اسلامی انتہا پسندوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے آج کے اس واقعے کو پاکستان کا نائن الیون قراردیا اور فوری طور پر بیرونی یا اندرونی طور پر کسی پر الزام لگانے سے اجتناب کیا۔ ان کے بقول فی الحال کسی پر ذمہ داری عائد کرنا قبل ازوقت ہو گا، تاہم اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ حملہ جمہوری عمل کو متاثر کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکوں سے ہوٹل کی عمارت اتنی زیادہ متاثر ہوئی ہے کہ اِس کے منہدم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
امریکہ نے اِس حملے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حملے اُس خطرے کی واضح طور پر نشاندہی کرتے ہیں، جس کا آج کی دُنیا کو سامنا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے اِن دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اِن کے بعد انتہا پسندوں کے پُرتشدد حملوں سے نمٹنے کے لئے برطانیہ کا عزم اور بھی پختہ ہو گیا ہے۔
اِدھر برلن میں وزارتِ خارجہ نے بتایا ہے کہ زخمی ہونے والوں میں کم از کم 6 جرمن باشندے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں میں ڈنمارک کا ایک سفارت کار بھی شامل ہے۔
ہفتہ کی شام میریٹ ہوٹل پر کئے گئے ان خود کش بم حملوں کے بعد، صدر آصف زرداری نے پالریمان کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب کے محض چند ہی گھنٹے بعد پاکستانی قوم سے ٹیلی ویژن پر خطاب بھی کیا، جس میں انہوں نے یہ کہا کہ دہشت گردی پاکستانی معاشرے کے لئے ایک ایسا مرض بن چکی ہے جیسے کہ سرطان اور اس کے خاتمےکے لئے حکومت اپنے تما م تر وسائل کام میں لائے گی۔