1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اب تحریک انصاف اور عمران خان کا مسقبل کیا ہے؟

28 نومبر 2024

پاکستان میں سیاسی حلقے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام آباد میں احتجاج کے خاتمے کے بعد اب پاکستان تحریک انصاف اپنے لیڈر عمران خان کی رہائی کے لیے کون سا لائحہ عمل اپنائے گی؟

پی ٹی آئی کے کارکن اس کی سب سے بڑی طاقت ہیں
پی ٹی آئی کے کارکن اس کی سب سے بڑی طاقت ہیںتصویر: FAROOQ NAEEM/AFP/Getty Images

اس سوال کے جواب میں ایک درجن کے قریب تجزیہ کاروں کے جوابات متفرق آرا لیے ہوئے تھے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے مستقبل میں اچھی خبریں نہیں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اس کے ساتھ نہیں، میڈیا اس کی خبروں کا بلیک آوٹ کر رہا ہے جبکہ پارلیمنٹ اور اس کی قانون سازی بھی اس جماعت کے حق میں نہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا بھی پابندیوں کی زد میں ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اندر اختلافات ہیں اور نئے نئے مقدمات قائم ہو رہے ہیں۔ ان کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی بات چیت کا بھی کوئی امکان نہیں ہے، اس لیے فی الحال کسی کامیابی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

دوسری طرف رائے یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ’’شدید جبر اور زیادتیوں‘‘ کے باوجود ابھی تک اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے، عوام کی بہت بڑی تعداد اس کی حامی ہے، عالمی سطح پر اس کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ملک کے کئی بڑے وکلا اس جماعت کے ساتھ ہیں اور عدالتوں سے عمران خان کو ضمانتیں بھی مل رہی ہیں۔

تحریک انصاف کے کتنے مظاہرین ہلاک ہوئے، حقیقت کیا ہے؟

نو مئی کے مبینہ ملزمان کو ابھی تک سزا نہیں مل سکی ہے۔ ملکی حالات میں اسٹیبلشمنٹ کو بلوچستان اور کے پی سمیت مختلف علاقوں میں، جن مشکلات کا سامنا ہے، اس کے پیش نظر اس کا پی ٹی آئی کے ساتھ کشیدگی بڑھا کر چو مُکھی لڑنا آسان نہیں ہو گا۔ اس لیے ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مفاہمت کے دروازے کھولنے پر مجبور ہو جائے۔

پاکستان کے سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی ٹی آئی کا مستقبل اب خود پی ٹی آئی کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ ''مرنے اور مارنے کی سیاست‘‘ سے الگ ہو کر سیاسی جماعت کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے پر راضی ہو جائے تو مستقبل کی سیاست میں اس کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بقول اسلام آباد کے احتجاجی مظاہرے کی جارحانہ حکمت عملی اور نو مئی جیسے واقعات نے اس جماعت کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے کارکن اس کی سب سے بڑی طاقت ہیںتصویر: Irtisham Ahmed/picture alliance/AP

ایک سوال کے جواب میں مجیب شامی کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کئی بڑے مقدمات میں ضمانت ہو چکی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مقدمات بھی بنتے رہتے ہیں اور رہائیاں بھی ملتی رہتی ہیں، ''پی ٹی آئی کو صبر کے ساتھ سیاسی جدوجہد بھی جاری رکھنی چاہیے اور مقدمات بھی لڑتے رہنا چاہیے۔‘‘

مجیب شامی کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی کے لیے سیاست کے دروازے بند نہیں ہیں۔ وہ قانون کے مطابق سیاست میں بالکل حصہ لے سکتی ہیں، ''لیکن وہ اچانک منظر عام پر آئیں، پارٹی قیادت سنبھالی اور قافلے کو زبردستی ڈی چوک لے گئیں لیکن وہ پھر اپنے ڈی چوک سے خان کی رہائی کے بغیر نہ جانے کے وعدے کو پورا نہیں کر سکیں، جس سے ان کی سیاست کی شروعات ہی خراب ہو گئیں۔‘‘

سیاسی کارکن پی ٹی آئی کی طاقت ہیں

 تجزیہ کار حامد میر نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے احتجاجی کارکنوں کا اس مشکل دور میں بھی ساری رکاوٹوں کو عبور کر کے بڑی تعداد میں اسلام آباد کے ڈی چوک تک پہنچ جانا کوئی معمولی پیش رفت نہیں۔ ان کے بقول حکومت کا لمبی چوڑی رکاوٹیں کھڑی کر کے بھی ان کو نہ روک سکنا، حکومت کی کمزوریوں کو ظاہر کرتا ہے۔

کیا مزاحمت ختم ہو جائے گی؟

ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ خیال کرنا کہ اسلام آباد سے واپس جا کر پی ٹی آئی خاموش ہو کر بیٹھ جائے گی، یہ خام خیالی ہے۔ ان کی رائے میں اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ واقعات کی وجہ سے پاکستانی سیاست کی تلخیوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے، ''پی ٹی آئی کے لوگ اب زیادہ غصے میں ہیں اور وہ آرام سے نہیں بیٹھیں گے، وہ کچھ عرصے بعد پھر نئے احتجاج کے ساتھ سامنے آئیں گے۔‘‘

تجزیہ کار امتیاز عالم کی بھی رائے یہی ہے کہ ایک واقعے کے بعد مزاحمت ختم نہیں ہو گی اور پی ٹی آئی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدو جہد جاری رکھے گی۔

کیا اب عمران خان کی رہائی نہیں ہو گی؟

حامد میر کہتے ہیں کہ حقائق آہستہ آہستہ سامنے آئیں گے۔ اس بات کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ پی ٹی آئی لیڈروں نے عمران خان کی رہائی کے حوالے سے کچھ یقین دہانیاں لے کر حکومت کو فیس سیونگ دی ہو،  ''اگر یہ اطلاع درست ہے تو پھر عمران خان کی رہائی میں زیادہ دیر نہیں ہو گی۔‘‘

سینئر تجزیہ کار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کی رہائی کا فیصلہ عدالتوں کو کرنا ہے، وہ بڑے مقدمات میں پہلے ہی رہا ہو چکے ہیں جبکہ نئے مقدمات میں کوئی جان نہیں ہے۔

 تجزیہ کار حامد میر نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے احتجاجی کارکنوں کا اس مشکل دور میں بھی ساری رکاوٹوں کو عبور کر کے بڑی تعداد میں اسلام آباد کے ڈی چوک تک پہنچ جانا کوئی معمولی پیش رفت نہیںتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

 پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کو کچھ مقدمات میں رہائی ملتی ہے تو نئے مقدمات بنا دیے جاتے ہیں۔ ان کی رہائی سیاسی بات چیت سے ہی ممکن ہو سکے گی اور یہ سیاسی بات چیت تب شروع ہو گی، جب اسٹیبلشمنٹ بات چیت چاہے گی۔

کیا بشریٰ بی بی قیادت سنبھالنے کی اہلیت رکھتی ہیں؟

حامد میر کہتے ہیں کہ بشریٰ بی بی نے ساری پارٹی قیادت کی رائے کے خلاف اسلام آباد کے ڈی چوک میں داخل ہو کر ثابت کیا تھا کہ وہ بہادری کے ساتھ پارٹی معاملات کو آگے لے کر جا سکتی ہیں لیکن انہوں نے ڈی چوک سے واپس جا کر خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی، ''اب ان کا سیاست میں کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔‘‘

 امتیاز عالم کہتے ہیں کہ بشریٰ بی بی کا رول پارٹی میں نہیں بنتا، ''ان کی طرف سے پارٹی رہنماؤں کو یرغمال بنا لینا، پارٹی میں پسند نہیں کیا گیا۔‘‘ ڈاکٹر حسن عسکری بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی والے ہمیشہ دوسری جماعتوں کو اقربا پروری اور وراثتی سیاست کا طعنہ دیتے تھے،'' اگر پی ٹی آئی بھی بشریٰ بی بی نے سنبھال لی تو پھر اس میں اور دوسری جماعتوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟‘‘

حسن عسکری  کے مطابق اس وقت پارٹی مشکل میں ہے اور اس کے مسائل بہت زیادہ ہیں، ''بشریٰ بی بی اس کو نہیں سنبھال سکتیں۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں