’اسلام آباد طالبان پر کابل حکومت سےمذاکرات کے لیے دباؤ ڈالے‘
24 جنوری 2019
ڈاووس میں افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا عالمی برادری سے افغانستان کی مشکل صورتحال میں ساتھ نہ چھوڑنے کا مطالبہ۔ انہوں نے یہ بات ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے افغانستان میں سے امریکی فوجیں واپس بلانے کے ضمن میں کہی۔
اشتہار
سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈاووس میں جاری عالمی اقتصادی فورم کے دوسرے روز افغان سی ای او عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ دنیا کو افغانستان سے ناامید ہوکر صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ گیارہ ستمبر سن دو ہزار ایک کے حملوں کے جواب میں امریکا کی جانب سے طالبان حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد اسلامی شدت پسند گروہ دوبارہ طاقت پکڑ رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے پی سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا، ’’ہم سب نے گزشتہ اٹھارہ برس میں غلطیاں کی ہیں۔‘‘
افغانستان میں سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی اور طالبان کی طویل بغاوت کی وجہ سے ملک کو مستحکم کرنے کے لیے کوششیں موثر ثابت نہیں ہو رہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے گزشتہ ماہ عندیہ دیا تھا کہ افغانستان میں تعینات 14,000 امریکی فوجیوں میں سے نصف تعداد کو واپس بلوا لیا جائے گا۔قطر میں افغان طالبان اور امریکی نمائندوں کے مابین مذاکرات
افغان چیف ایگزیکٹیو نے کہا کہ امریکی فوجیوں کی واپسی پر صورتحال واضح نہیں ہے۔ ان کے بقول امریکی حکام کی جانب سے یہ ضرور کہا کیا گیا تھا لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی حتمی ہدایات جاری نہیں کی گئیں۔ عبداللہ عبداللہ اب بھی پراعتماد ہیں کہ امریکا افغانستان کے قومی اداروں کی تب تک حمایت کرے گا جب تک ملک میں امن قائم نہیں ہوتا۔
دریں اثناء عبداللہ عبداللہ نے بتایا کہ افغانستان میں عوام کو تعلیم اور صحت جیسی سہولیات فراہم کرنے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ ان کے مطابق افغانستان جنوبی اور وسطی ایشیائی ممالک میں اقتصادی ترقی کے لیے ’زمینی پل‘ بن سکتا ہے۔
علاوہ ازیں عبداللہ عبداللہ نے پاکستان سمیت دیگر ممالک سے مطالبہ کیا کہ طالبان پر افغان حکومت سے امن مذاکرات کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔
افغانستان میں ہونے والے آئندہ صدارتی انتخابات میں عبداللہ عبداللہ بطور صدارتی امیدوار حصہ لیں گے۔ انہوں نے اس بات کا اعلان رواں ماہ کیا تھا۔ صدارتی انتخابات کی دوڑ میں افغان صدر اشرف غنی بھی ان کے مد مقابل ہوں گے۔
ع آ / ع ت (اے پی)
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔