1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد میں بھتہ خوروں کو گرفتار کرنے کا دعوی

شکور رحیم 11 ستمبر 2013

پاکستان میں اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے صوبوں کے بعد اب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا رخ کر لیا ہے۔

تصویر: Getty Images/Afp/Shah Marai

اسلام آباد پولیس نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب کارروائی کرتے ہوئے سبزی اور فروٹ منڈی کے تاجروں سے مبینہ طور پر لاکھوں روپے بھتہ وصول کرنے والے پانچ افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

وفاقی دارالحکومت میں بھتہ خوری کا انکشاف چند روز قبل اس وقت ہوا جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقامی پولیس کے سربراہ نے انکشاف کیا کہ دہشت گرد گروہوں کے کارندے اسلام آباد کی سبزی منڈی کے تاجروں سے 45 لاکھ روپے ماہانہ بھتہ وصول کر رے ہیں۔ تاہم سبزی منڈی کے تاجروں کا کہنا ہے بھتے کی مد میں وصول کی جانے والی رقم اس سے بھی زیادہ ہے۔

اسلام آباد کے سیکٹر آئی الیون میں واقع فروٹ منڈی کی مرچنٹ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل طاہر ایوب کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچہ عرصے سے منڈی میں گاہکوں اور آڑھتیوں کو اسلحے کی نوک پر لوٹنے کے علاوہ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ طاہر ایوب منڈی کے قریب واقع افغان مہاجرین کی غیر قانونی آبادی کو جرائم کی شرح میں اضافے کا سبب قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانیون کی کچی بستی مسائل کی اصل جڑ ہے۔ ’’جب سے یہ لوگ یہاں آئے ہیں انہوں نے مقامی مزدوروں کو منڈی سے بھگا کر خود ہر جانب قبضہ جما لیا ہے اور پولیس کی ملی بھگت سے جرم کر رہے ہیں‘‘۔

تصویر: PakistanPakistanArif Ali/AFP/Getty Images

پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کراچی، پشاور اورکوئٹہ میں بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عام ہیں لیکن اسلام آباد میں اس صورتحال پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کان بھی حیران نظر آئے۔ منگل کی شام ایک پریس کانفرنس کے دوران اسلام آباد میں بھتہ خوری سے متعلق سوال پر چوہدری نثارنے کہا کہ اگر اسلام آباد میں بھتہ خوری ہو رہی ہے تو پولیس کیا کر رہی ہے۔ انہوں نے آئی جی اسلام آباد سکندر حیات کو بھتہ خوروں کے خلاف فوری ایکشن لینے کا حکم دیا۔

انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد سکندر حیات نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق دو گروہ منڈی کے تاجروں سے ’’چوکیداری‘‘ کے نام پر پیسے وصول کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیسوں کی وصولی کے معاملے پر ان گروہوں کی آپس میں بھی لڑائیاں ہو چکی ہیں۔ تاہم آئی جی کے بقول’’ ان گروپوں کے خلاف ایکشن شروع کر دیا گیا ہے اور جلد ہی ان کا صفایا کر دیا جائے گا‘‘۔

انگریزی روزنامہ "دی نیوز''سے وابستہ صحافی اور بے نظیر بھٹو کے قتل پر لکھی گئی ایک کتاب کے مصنف شکیل انجم کا کہنا ہے کہ مسلح گروہ تاجروں کو 'تحفظ' فراہم کرنے کے نام پر ان سے رقم بٹورتے ہیں۔ انہوں نےکہا کہ ’’اصل میں یہ بھتے کی ہی ایک شکل ہے کیونکہ رقم ادا نہ کرنے والے تاجر کو سنگین نتا ئج کی دھمکیاں سننا پڑتی ہیں۔ پولیس کے مطابق 45 لاکھ روپے ماہانہ وصول کیا جارہا ہے اگر اسی کو درست مان لیں تو اتنی بڑی رقم اسلحے کے زور کے بغیر اکھٹی نہیں کی جاسکتی‘‘۔

شکیل انجم کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے والوں میں ایک مقامی شخص کے علاوہ افغان باشندے شامل ہیں۔

پاکستان میں بھتہ خوری کے سب سے زیادہ واقعات کراچی میں ہو رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کافی عرصے سے ان وارداتوں پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہی ہیں لیکن ابھی تک انہیں اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کی رپورٹس کے مطابق دہشت گرد گر ہوں اور مجرم گینگ مل کر بھتے کی وصولی میں کرتے ہیں۔ بھتے سے حاصل ہونے والی رقم مختلف ذریعوں سے ہوتی ہوئی طالبان شدت پسندوں تک پہنچتی ہے جو اسے دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے مالی وسائل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بھتہ وصولی کے علاوہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں نے بھی اسلام آباد کے متمول افراد کوخدشات سے دو چار کر رکھا ہے۔گزشتہ چند ماہ کے دوران اسلام آباد کی ایک گھی مل کے مالک اور ایک معروف زرگر کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا اور یہ دونوں بھاری رقم ادا کر کے آزاد ہوئے۔

پولیس کے مطابق گزشتہ چار سالوں میں اغوا برائے تاوان کے 19 مقدمات درج ہوئے ہیں۔تاہم اصل میں ان مقدمات کی تعداد بھی زیادہ ہے لیکن اس طرح کی وارداتوں کا شکار ہونے والے اکثر جان کے ڈر سے مقدمہ درج نہیں کراتے اور اغوا کاروں کو رقم ادا کر کے جان چھڑاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں سے نمٹنے کے لیے پولیس کے پاس پیشہ وارانہ مہارت کی کمی ہے اور جدید تکنیکوں اور آلات کا استعمال کر کے ان وارداتوں پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں