سابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف آج مری سے واپس وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے نواح میں پہنچے تو ان کے ہزاروں حامی استقبال کے لیے موجود تھے۔
اشتہار
سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف وزیر اعظم ہاؤس خالی کرنے کے بعد مری چلے گئے تھے۔ اس دوران انہی کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان شاہد خاقان عباسی نے نئے پاکستانی وزیر اعظم کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا تھا۔
آج نواز شریف واپس وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کے نواحی علاقے بھارہ کہو میں پہنچے تو ان کے استقبال کے لیے مسلم لیگ نون کے کارکنوں کی بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی۔
نواز شریف ایک رات اسلام آباد میں گزارنے کے بعد اتوار کے روز لاہور جا رہے ہیں، جہاں وہ کارکنوں سے خطاب کریں گے۔ نا اہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف اور ان کی سیاسی جماعت پہلی مرتبہ عوامی سطح پر سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے ہیش ٹیگ ’صرف نواز شریف‘ ٹرینڈ کرتا رہا۔ مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس ہیش ٹیگ کے ساتھ نواز شریف کے حامیوں کے علاوہ ان کے مخالفین بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے دیکھے گئے۔
مومنہ نامی ایک ٹوئٹر صارف نے نواز شریف کے استقبال کے حوالے سے لکھا، ’’جب بھی انہیں (نواز شریف کو) سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کی کوشش کی تو نواز شریف عوامی اسپورٹ کے ساتھ زیادہ بڑی قوت بن کر واپس آئے۔‘‘
اس کے جواب میں ایک اور ٹوئٹر صارف بلال واجد حسین نے پوچھا، کہ نواز شریف نے ملک کی کیسے خدمت کی؟
اسی طرح آفاق احمد نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا، ’’شیر جدھر کھڑا ہوتا ہے، جلسہ ادھر ہی ہوتا ہے۔ لوگوں کی طرح مہینوں پہلے اعلان کر کے لوگ اکھٹے نہیں کیے۔‘‘
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی شروع کردہ کوئی ٹرینڈ نمایاں نہیں رہا۔ تاہم مذہبی اور سیاسی شخصیت طاہر القادری کی آٹھ اگست کو لاہور آمد ٹوئٹر پر بھی ٹرینڈ کرتی رہی۔
اسی ٹرینڈ کو استعمال کرتے ہوئے عتیق الرحمان نے لکھا کہ ’جمہوریت اس نظام کا نام ہے جس میں سیاسی، انتظامی اور عدالتی طریقہ کار موجود ہو‘۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کا آج چترال میں منعقد ہونے والا جلسہ بھی ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرتا دکھائی دیا۔
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔