اسلام آباد کی غیر قانونی افغان کچی بستی مسمار
30 جولائی 2015آج جمعرات تیس جولائی کی صبح وفاقی ادارہ ترقیات یا کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی قیادت میں شروع کیے جانے والے اس آپریشن میں رینجرز کے نیم فوجی دستے اور اسلام آباد پولیس کے پندرہ سو جوان بھی حصہ لے رہے ہیں۔ اس موقع پر کچی آبادی کے مکینوں کی طرف سے مزاحمت بھی کی گئی، جس کے نیتجے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد زخمی ہو گئے۔ سی ڈی اے کے حکام کا کہنا ہےکہ سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضہ ختم کرانے کے لیے شروع کیے گئے اس آپریشن کو بہرصورت نتیجہ خیز بنایا جائے گا۔
سی ڈی اے کے ترجمان رمضان ساجد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے نے سیکٹر آئی الیون 1985ء میں قائم کیا تھا لیکن وہ اسے غیرقانونی قبضے کی وجہ سے آج تک آباد نہیں کر سکا۔ انہوں نے کہا، ’’افغان جہاد کے دور میں یہاں پر بڑی تعداد میں افغان مہاجرین آ کر رہنے لگے تھے، جو پھر واپس نہیں گئے۔ ہم سالہا سال سے ان غیر قانونی قابضین کو نوٹس بھجواتے رہے کہ وہ یہ جگہ خالی کر دیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ کئی مرتبہ سی ڈی اے نے خود یہ جگہ خالی کرانے کی کوشش کی تو امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کی وجہ سے یہ آپریشن روکنے پڑے۔ اب لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ بھی اس بستی کو گرانے کا حکم دی چکی ہے، جس کی اس وقت تعمیل کی جا رہی ہے۔‘‘
رمضان ساجد نے کہا کہ غیرقانونی قابضین نے سیکٹر آئی الیون کے سب سیکٹر ون پر مکمل قبضہ کر رکھا ہے، جس کی زمین کا رقبہ 2500 کنال بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق اس بستی میں قریب آٹھ ہزار افراد رہ رہے ہیں۔
جمعرات کی صبح جب سی ڈی اےکے بلڈوزر کچی آبادی مسمار کرنے کے لیے بڑھے تو وہاں کے رہائشی مزاحمت کرتے ہوئے اپنے کچے گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے۔ تاہم پولیس نے ایسے افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ایک خاتون سمیت چار افراد کو گرفتار کر لیا۔ بعض مظاہرین کی جانب سے آپریشن کرنے والے سی ڈی اے اور پولیس کے اہلکاروں پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکن اور سول سوسائٹی کے نمائندے مکینوں کو کوئی متبادل جگہ دیے بغیر اس کچی بستی کو مسمار کرنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ سول سوسائٹی کے ایک فعال کارکن ارشد عباسی کا کہنا ہے کہ ہزاروں افراد کو بے گھر کیا جا رہا ہے اور وہ بھی یہ دیکھے بغیر کہ وہ کہاں جائیں گے۔ انہوں نے کہا، ’’حکمرانوں کو دیکھنا ہو گا کہ وہ کوئی مسئلہ حل کر رہےہیں یا اس میں اضافہ کر رہے ہیں؟ ایک بستی کو بغیر کسی منصوبہ بندی کے مسمار کر دینا زیادہ مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ کئی دہائیوں سے یہاں رہنے والوں کو اجازت کس نے دی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہاں غیر قانونی تجاوزات کس نے بنوائیں، ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔‘‘
اس بستی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ مختلف جرائم میں ملوث بہت سے افراد، جن میں چوری، ڈکیتی اور منشیات فروشی بھی شامل ہیں، اکثر یہاں پناہ لیے ہوئے ہوتے تھے۔
تاہم بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس غیر قانونی افغان بستی کے خلاف فیصلہ کن آپریشن دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ گزشتہ برس سولہ دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردانہ حملے میں ڈیڑھ سو طلبہ اور اساتذہ کی ہلاکت کے بعد ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک قومی پلان منظور کیا گیا تھا، جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا تھا۔
اسی ایکشن پلان کے تحت پاکستان میں غیر قانوی طور پر مقیم بہت سے افغان باشندوں کے خلاف اب تک کارروائی بھی کی جا چکی ہے، جن میں سے متعدد کو زبردستی واپس افغانستان بھجوا دیا گیا تھا۔ تاہم سی ڈی اے کے ترجمان رمضان ساجد کا کہنا ہے کہ موجودہ آپریشن غیر قانونی تجاوزات کے خلاف ہے اور اس کا نیشنل ایکشن پلان سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اس افغان کچی بستی کے خلاف آپریشن کتنے دن میں مکمل ہو گا، یہ کہنا فی الحال قبل از وقت ہے کیونکہ ابھی بہت سا کام باقی ہے۔