اسلام آباد کی واشنگٹن کی بجائے ریاض کے لیے حمایت، زیر بحث
عبدالستار، اسلام آباد
20 اکتوبر 2022
سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بظاہر پیدا ہونے والی تلخی کے موقع پر اسلام آباد نے ریاض کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جسے سعودی عرب کے ساتھ یکجہتی کی ایک علامت تصور کیا جارہا ہے۔
اشتہار
پاکستان کے دفتر خارجہ نے کچھ دنوں پہلے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بظاہرپیدا ہونے والی تلخی کے حوالے سے سعودی عرب کی حمایت کی تھی۔ ملک کے کئی حلقے اس حمایت کو مثبت قرار دے رہے ہیں ہیں لیکن کچھ اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک تیل کی پیداوار بڑھائیں تاکہ تیل کی قیمتیں گر سکیں لیکن روس اور سعودی عرب نے اوپیک میں تیل کی پیداوار بڑھانے سے انکار کیا، جس پر واشنگٹن ناراض ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کا کہنا ہے کہ سعودی اقدام اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سعودی عرب کے اسٹریٹجک مفادات تبدیل ہو رہے ہیں اور وہ اب ایک آزاد خارجہ پالیسی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی اس سعودی اقدام سے سیکھیں اور اپنی خارجہ پالیسی کو آزاد اور خود مختار بنائیں۔ ہم نے ہمیشہ امریکہ پر بھروسہ کیا اور ہم ہمیشہ امریکی کیمپ میں رہے لیکن امریکہ نے نے ہمارے مفادات کا خیال نہیں رکھا۔‘‘
ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کے مطابق پاکستان نے سعودی عرب کی ایک ایسے موقع پر حمایت کی ہے جبکہ اس کے تعلقات واشنگٹن سے سرد مہری کا شکار ہو رہے ہیں: ''پاکستانیوں کو امید ہے کہ سعودی عرب میں بھی پاکستان کے مفادات کو پیش نظر رکھے گا اور پاکستان کو جن معاشی مشکلات کا سامنا ہے، ان کو دور کرنے میں ریاض اپنا کردار ادا کرے گا۔‘‘
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں عسکری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، امریکا، روس اور سعودی عرب شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Talbot
عمان
مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سعودی عرب
سپری کے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے ملکی فوج اور دفاعی ساز و سامان پر 61.9 بلین امریکی ڈالر صرف کیے اور اس حوالے سے بھی وہ دنیا بھر میں پانچواں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر نے گزشتہ برس 10.30 بلین ڈالر فوج اور اسلحے پر خرچ کیے جو اس ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ عسکری اخراجات کے حوالے سے الجزائر دنیا کا 23واں بڑا ملک بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
کویت
تیسرے نمبر پر کویت ہے جہاں عسکری اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 5.6 بنتے ہیں۔ کویت نے گزشتہ برس 7.7 بلین امریکی ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے اور اس حوالے سے وہ دنیا میں میں 26ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/U.S. Marines
اسرائیل
اسرائیل کے گزشتہ برس کے عسکری اخراجات 20.5 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھے اور زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اسرائیل کا 15واں نمبر ہے۔ تاہم جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا 5.3 فیصد فوج پر خرچ کر کے جی ڈی پی کے اعتبار سے اسرائیل پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/H. Bader
آرمینیا
ترکی کے پڑوسی ملک آرمینیا کے عسکری اخراجات اس ملک کے جی ڈی پی کا 4.9 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم اس ملک کا مجموعی عسکری خرچہ صرف 673 ملین ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
اردن
اردن اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد فوج اور عسکری ساز و سامان پر خرچ کر کے اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اردن کے دفاع پر کیے جانے والے اخراجات گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی رقم خرچ کرنے کی فہرست میں اردن کا نمبر 57واں بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
لبنان
لبنان نے گزشتہ برس 2.5 بلین امریکی ڈالر عسکری اخراجات کیے جو اس ملک کے جی ڈی پی کے 4.20 فیصد کے برابر ہیں۔
تصویر: AP
آذربائیجان
آذربائیجان نے بھی 1.8 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات کیے لیکن جی ڈی پی کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے مساوی رہے۔
تصویر: REUTERS
پاکستان
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس اپنی مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد فوج اور عسکری معاملات پر خرچ کیا۔ سن 2019 کے دوران پاکستان نے 10.26 بلین امریکی ڈالر اس مد میں خرچ کیے یوں فوجی اخراجات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
روس
روس کے فوجی اخراجات 65 بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی خرچے کے اعتبار سے وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یہ اخراجات روسی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہیں اور اس اعتبار سے وہ گیارہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Pitalev
بھارت
بھارت عسکری اخراجات کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھارت کا فوجی خرچہ 71 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 2.40 فیصد بنتا ہے۔ اس حوالے وہ دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
چین
چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچہ امریکا کرتا ہے اور گزشتہ برس کے دوران بھی امریکا نے 732 بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ سن 2018 میں امریکی عسکری اخراجات 682 بلین ڈالر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اخراجات میں اضافے کے باوجود یہ رقم امریکی مجموعی قومی پیداوار کا 3.40 فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا دنیا میں 14ویں نمبر پر ہے۔
طلعت عائشہ وزارت کے خیال میں سعودی عرب پاکستان کے محنت کشوں کو مختلف پراجیکٹس میں روزگار فراہم کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو ادھار تیل دے کر بھی پاکستان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
اسٹریجک مفادات
کئی مبصرین پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مغرب نواز قرار دیتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ مغرب کے ساتھ اپنی وفاداری نبھانے کی کوشش کی ہے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی کو تشکیل نہیں دیا گیا۔ تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان اب اسٹریٹجک معاملات میں کسی بھی طاقت کی ڈکٹیشن لینے سے انکاری ہے اور سعودی حمایت اس کی عکاس ہے۔
اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی کے عالمی ادارے برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجم الدین کا کہنا ہےکہ واشنگٹن پاکستان کے ساتھ جزا اور سزا کے اصول کا اطلاق کر رہا ، جسے اسلام آباد میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا نہیں جاتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کیونکہ پاکستان نے سرد جنگ کے دوران امریکی مفادات کے لئے بہت ساری قربانیاں دی ہیں۔ اس کے بدلے میں امریکہ نے پاکستان کے مسائل حل کرنے میں یا پاکستان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے میں مدد نہیں کی۔ اب پاکستان کے اسٹریٹجک مفادات سعودی عرب کے ساتھ ہیں اور اس کی بہت ساری وجوہات ہیں، جس میں ایک بہت اہم وجہ لاکھوں کی تعداد میں وہ پاکستانی ہیں جو وہاں کما کر پاکستان پیسہ بھیج رہے ہیں۔ یہ پیسہ پاکستانی معیشت کے لئے بہت اہم ہے۔ اس لیے پاکستان کسی بھی صورت میں مشکل وقت میں سعودی عرب کو نہیں چھوڑ سکتا۔
اشتہار
فطری اتحادی
اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے وابستہ ڈا کٹر نور فاطمہ کا خیال ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب فطری اتحادی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کیونکہ سعودی عرب نے ماضی میں بھی پاکستان کی مدد کی ہے۔ لہٰذا یہ حمایت منطقی ہے لیکن ہمیں اس حمایت کے بدلے سعودی مدد لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستان معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اس لیے ہمیں خارجہ پالیسی اس طرح بنانا چاہیے کہ اس سے ہم معاشی مفادات حاصل کرسکیں۔‘‘
تیل کی پیداوار میں سعودی عرب اور امریکا مدِ مقابل
01:23
معاشی نقصان
تاہم کچھ ناقدین کے خیال میں اگر سعودی عرب تیل کی پیداوار کم کر کے تیل کی قیمتوں کو بڑھا رہا ہے تو اس سے پاکستان کی معیشت کو فائدہ نہیں ہوگا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا تھا کہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی حمایت معاشی نقطہ نظر سے خودکشی کرنے کے مترادف ہے: ''یہ ہم نے سعودی عرب ہی کی صرف حمایت نہیں کی ہے بلکہ تیل کی قیمتوں کو بڑھانے کی حمایت کی ہے۔ آپ کی بجلی تیل پر ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کہ وجہ سے تیل کی درآمد زیادہ ہے۔ 20 بلین ڈالرز کا آپ تیل درآمد کر رہے ہیں۔ ایسے میں تیل کی قیمتوں کے بڑھنے کی حمایت معاشی نقطہ نظر سے دانشمدانہ نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹر قیس اسلم کے بقول اگر اس حمایت کے بدلے سعودی عرب ہمیں رعایتی قیمت پر تیل دیتا تو حمایت کی معاشی وجہ سمجھ میں آتی۔
پاک سعودی تعلقات
واضح رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ سے ہی بہت برادرانہ رہے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران دونوں ممالک کمیونزم کے خلاف امریکہ کے سرمایہ دارانہ کیمپ میں تھے۔ افغانستان کے جہاد کے دوران دونوں ملکوں نے وہاں پر مختلف مجاہد گروپس کی حمایت کی۔ جب 1990 کی دہائی میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو دونوں ملکوں نے اسے تسلیم کیا تھا۔
لاکھوں کی تعداد میں پاکستانیوں کو روزگار فراہم کیا بلکہ اسی کی دہائی میں جب قدامت پرست بادشاہت کو کچھ اندرونی خطرات ہوئے، تو پاکستان نے بھی اس کی مدد کی۔ پہلی جنگ خلیج کے دوران بھی پاکستان نے سعودی عرب کو اپنے تعاون کا یقین دلایا جب کہ 1998ء کے جوہری دھماکوں کے بعد جب اسلام آباد کی معاشی مشکلات بڑھیں، تو سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا۔
پاکستان کو ترقیاتی امداد دینے والے دس اہم ممالک
2010ء سے 2015ء کے دوران پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والے دس اہم ترین ممالک کی جانب سے مجموعی طور پر 10,786 ملین امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی۔ اہم ممالک اور ان کی فراہم کردہ امداد کی تفصیل یہاں پیش ہے۔
تصویر: O. Andersen/AFP/Getty Images
۱۔ امریکا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C.Kaster
۲۔ برطانیہ
برطانیہ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ برطانیہ نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 2686 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Dunham
۳۔ جاپان
تیسرے نمبر پر جاپان ہے جس نے سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 1303 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Farooq Ahsan
۴۔ یورپی یونین
یورپی یونین کے اداروں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مذکورہ عرصے کے دوران اس جنوبی ایشیائی ملک کو 867 ملین ڈالر امداد دی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Katsarova
۵۔ جرمنی
جرمنی، پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا پانچواں اہم ترین ملک رہا اور OECD کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی نے پاکستان کو قریب 544 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Imago/Müller-Stauffenberg
۶۔ متحدہ عرب امارات
اسی دورانیے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 473 ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کی۔ یو اے ای پاکستان کو ترقیاتی کاموں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۷۔ آسٹریلیا
ساتویں نمبر پر آسٹریلیا رہا جس نے ان پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 353 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
۸۔ کینیڈا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران کینیڈا نے پاکستان کو 262 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیے۔
تصویر: Getty Images/V. Ridley
۹۔ ترکی
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے اہم ممالک کی فہرست میں ترکی نویں نمبر پر ہے جس نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 236 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تصویر: Tanvir Shahzad
۱۰۔ ناروے
ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا دسواں اہم ملک رہا جس نے مذکورہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 126 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/M. Jung
چین
چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے اور عام طور پر چینی امداد آسان شرائط پر فراہم کردہ قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ چین ’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق ایسے قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ صرف سن 2014 میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 4600 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سعودی عرب
چین کی طرح سعودی عرب بھی ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سن 1975 تا 2014 کے عرصے میں پاکستان کو 2384 ملین سعودی ریال (قریب 620 ملین ڈالر) دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
12 تصاویر1 | 12
تمام پاکستانی حکومتوں نے سعودی عرب سے ہمیشہ خوشگوار تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم ان تعلقات میں تھوڑی سی تلخی عمران خان کے گزشتہ دور حکومت میں آئی جب عمران خان کے کچھ بیانات کو قدامت پرست ریاست میں مثبت انداز میں نہیں لیا گیا اور اس پہ ناراضگی کے اشارے بھی ملے۔ سعودی عرب نے ایک خطیر رقم، جو پاکستان کے مرکزی بینک میں زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لئے رکھوائی تھی، اس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ عمران خان کی حکومت کے برعکس شہباز حکومت سعودی عرب سے انتہائی قریبی تعلقات کی خواہاں ہیں۔