اسلام اور مہاجرین مخالف جرمن پارٹی اب یورپی پارلیمان کے خلاف
13 جنوری 2019
جرمنی میں اسلام اور مہاجرین کی آمد کی مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی اب یورپی پارلیمان کے بھی خلاف ہو گئی ہے۔ پارٹی کے ایک کنوینشن میں یہ رائے سامنے آئی کہ یورپی پارلیمان غیر ضروری ہو چکی ہے، جسے ختم کر دیا جانا چاہیے۔
اشتہار
جرمنی میں لاکھوں مہاجرین اور غیر ملکی تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحرانی حالات کے پس منظر میں گزشتہ چند برسوں کے دوران کافی عوامی تائید حاصل کر لینے والی یہ جماعت الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (AfD) یا ’جرمنی کے لیے متبادل‘ کہلاتی ہے۔ اپنی سیاسی سوچ کے لحاظ سے یہ پارٹی کافی حد تک انتہائی دائیں بازو کی پاپولسٹ سیاسی جماعت ہے۔
اس جماعت کا ایک ملک گیر کنوینشن اس وقت شہر ’رِیزا‘ میں ہو رہا ہے، جہاں اس اجتماع کے مندوبین کی بڑی تعداد کی طرف سے اتوار تیرہ جنوری کو یہ رائے سامنے آئی کہ یورپی پارلیمان ’غیر ضروری‘ ہو چکی ہے، جس کے خاتمے کے لیے کوششیں کی جانا چاہییں۔
قول و فعل کا تضاد
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اس کنوینشن میں اے ایف ڈی کے مندوبین نے اپنے مستقبل کے جس سیاسی ارادے کا اظہار کیا، وہ دراصل حقیقت اور خواہش کے درمیان ایک بڑے فرق اور قول و فعل کے تضاد کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ جس کنوینشن میں یورپی پارلیمان کو ’غیر ضروری‘ اور ’عضو معطل‘ قرار دیا گیا، وہی اجتماع اسی یورپی پارلیمانی ادارے کی آئندہ رکنیت کے لیے اپنے ممکنہ امیدواروں کے انتخاب کے لیے منعقد کیا جا رہا ہے۔
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
5 تصاویر1 | 5
اے ایف ڈی کا یہ ’یورپی کنوینشن‘ جمعہ گیارہ جنوری کو شروع ہوا تھا، جو پیر چودہ جنوری تک جاری رہے گا۔ اس پارٹی اجلاس میں مندوبین کو اپنی جماعت کی یورپ اور یورپی یونین سے متعلق سیاست کے رخ کا تعین بھی کرنا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اسی اجلاس میں ان امیدواروں کے ناموں کا حتمی انتخاب بھی کیا جانا ہے، جو اس جماعت کی طرف سے 26 مئی کو ہونے والے آئندہ یورپی پارلیمانی انتخابات میں جرمنی سے امیدوار ہوں گے۔
بریگزٹ ہی کی طرح ’ڈیگزٹ‘
اس پارٹی نے اسی یورپی پارلیمان کو اپنے طور پر ’عضو معطل‘ قرار دے دیا، جس کے رکنیت کے لیے اسے اپنی صفوں میں سے بہت سے سیاسی چہروں کی تلاش ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کنوینشن میں یہ بات بھی کہی گئی کہ جرمنی کو برطانیہ کے بریگزٹ (Brexit) کی طرز پر اپنے لیے ڈیگزٹ (Dexit) کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔
اس Deutschland Exit یا Dexit سے مراد یہ تھی کہ جرمنی کو بھی آئندہ یورپی یونین سے نکل جانا چاہیے اور اے ایف ڈی اس کے لیے اپنی سیاسی مہم 2024ء میں شروع کرے گی۔ لیکن کنوینشن کی ایک ممکنہ قرارداد کے طور پر اس تجویز کو مندوبین کی اکثریت کی تائید حاصل نہ ہو سکی اور یوں اس پارٹی نے ابتدائی طور پر اس نام نہاد ’ڈیگزٹ‘ کے بارے میں جو کچھ بھی سوچا تھا، اس سے متعلق اس اجلاس میں ہی خاموشی اختیار کر لی گئی۔
عوامیت پسند یورپی رہنما کیا روس کے ساتھ ہیں؟
سن 2014 میں یوکرائنی بحران کے باعث یورپی یونین امریکا کی طرف راغب ہوئی اور روس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یوں کئی اہم یورپی رہنما ماسکو حکومت سے دور ہو گئے تاہم عوامیت پسند یورپی سیاست دان روس کی طرف مائل ہوتے نظر آئے۔
تصویر: DW/S. Elkin
سٹراخا روس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حامی
آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Bader
’روس اور سفید فام دنیا‘، ژاں ماری لے پین
فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سیاسدتان ژاں ماری لے پین کو 2015ء میں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے کہا کہ فرانس کو روس کے ساتھ مل کر ’سفید فام دنیا‘ کو بچانا چاہیے۔ قبل ازیں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نازی جرمن دور کے گیس چیمبرز ’تاریخ کی ایک تفصیل‘ ہیں۔ ان اور ایسے ہی دیگر بیانات کی وجہ سے ان کی بیٹی مارین لے پین نے انہیں اپنی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ سے بے دخل کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/G. Fuentes
’روس کے اثر میں نہیں‘، مارین لے پین کا اصرار
فرانسیسی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں ’بالکل بیوقوفانہ‘ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کریمیا ہمیشہ سے ہی روس کا حصہ تھا‘۔ نیشنل فرنٹ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے روسی بینکوں سے قرضے لیے تاہم لے پین کے بقول روس کا ان پر یا ان کی پارٹی پر اثرورسوخ نہیں ہے۔ سن 2017ء میں انہوں نے کریملن میں روسی صدر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Klimentyev
متبادل برائے جرمنی کے روس کے ساتھ مبینہ تعلقات
مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی روسی پس منظر کے حامل ووٹرز میں قدرے مقبول ہے۔ اس پارٹی کی سابق رہنما فراؤکے پیٹری نے سن 2017ء میں روسی صدر کی سیاسی پارٹی کے قانون سازوں سے ماسکو میں ملاقات کی تھی۔ اے ایف ڈی روس پرعائد پابندیوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتی ہے۔ تاہم اس پارٹی کے رہنما ایلیس وائیڈل اور الیگزینڈر گاؤلینڈ کے بقول اے ایف ڈی پوٹن یا ان کی ’مطلق العنان حکومت‘ کی حمایت نہیں کرتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
وکٹور اوربان کے پوٹن کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کئی مرتبہ بوڈا پیسٹ میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کر چکے ہیں۔ دونوں رہنما اپنے طرز حکمرانی کے طریقہ کار میں کئی مماثلتیں رکھتے ہیں۔ اوربان کا کہنا کہ ہے یورپی سیاستدان خود کو اچھا دکھانے کی کی خاطر پوٹن کو ’برا‘ ثابت کرتے ہیں۔ تاہم سیرگئی اسکریپل پر کیمیائی حملے کے بعد روسی اور یورپی سفارتی بحران کے نتیجے میں ہنگری نے روسی سفارتکاروں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters/Laszlo Balogh
گیئرت ولڈرز کا دورہ روس اور تنقید
اسلام مخالف ڈچ سیاست دان گیئرت ولڈرز نے سن 2014ء میں پرواز MH-17 کے مار گرائے جانے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 2018ء میں ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی۔ تاہم روس کے ایک حالیہ دورے کے بعد ان کے موقف میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے اب کہا ہے کہ وہ نیٹو اور امریکا کے حامی ہیں لیکن مہاجرت کے بحران اور مسلم انتہا پسندی کے خلاف روس ایک اہم حلیف ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Dejong
اٹلی کے نئے نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی
اٹلی میں حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت میں عوامیت پسند سیاسی جماعت ’لیگ‘ اور فائیو اسٹار موومنٹ شامل ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں روس پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کو ’جارحانہ‘ اقدامات نہیں کرنا چاہییں۔ لیگ کے اعلیٰ رہنما ماتیو سالوینی ملک کے نئے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ’امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
7 تصاویر1 | 7
یورپی پارلیمان ’غیر جمہوری‘ ادارہ
انتہائی دائیں بازو کی اس جرمن سیاسی جماعت نے یورپی پارلیمان کو ’غیر ضروری‘ یہ کہتے ہوئے قرار دیا کہ اپنے ’موجودہ 751 مراعات یافتہ ارکان‘ کے ساتھ یہ یورپی پارلیمانی ادارہ، جس کے اجلاس برسلز اور اسٹراسبرگ میں ہوتے ہیں، ایک ’غیر جمہوری‘ ادارہ بن چکا ہے۔ آیا یہ موقف واقعی اس پارٹی کا باقاعدہ سیاسی موقف ہے، اس بارے میں کنوینشن کے مندوبین کے مابین رائے شماری آج اتوار ہی کی رات ہو رہی ہے۔
ساتھ ہی اسی کنوینشن میں مندوبین کی طرف سے یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ یورپی یونین کی پارلیمان کے بجائے ایک ایسی یورپی اسمبلی تشکیل دی جانا چاہیے، جس کے ’مندوبین‘ کی تعداد زیادہ سے زیادہ 100 ہو۔
اتفاق رائے ایک مشکل ہدف
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اس کنوینشن کے شرکاء اپنی باہمی مشاورت اور بحث و مباحثے کے شروع کے پورے دو دنوں یعنی کل ہفتے کی رات تک تو اس سلسلے میں کسی بھی اتفاق رائے تک پہنچنے کے عمل میں شدید مشکلات کا شکار رہے کہ یورپی پارلیمانی انتخابات کے لیے اے ایف ڈی کے پارٹی امیدواروں کی فہرست میں کس کس کو جگہ ملنا چاہیے اور کس کس کو نہیں۔
م م / ش ح / ڈی پی اے، اے ایف پی
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔