ہم جنس پرستی سے متعلق مختلف مذاہب بالخصوص مسلم مکاتب فکر میں ایک سخت رائے رہی ہے، مگر حالیہ کچھ عرصے میں مختلف مسلم دانشور اس موضوع پر بات کر رہے ہیں۔
اشتہار
ابراہیمی مذاہب میں اس معاملے کو ’موضوع ممنوعہ‘ کے بہ طور ایک طویل عرصے تک یک سر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، مگر اب نہ صرف کیتھولک چرچ اس معاملے پر کسی حد تک کھلے پن کا مظاہرہ کر رہا ہے، بلکہ مسلم مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے چند دانش ور مختلف مسلم معاشروں میں ہم جنس پسندی کے موضوع پر گفت گو کرتے نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام اور مسلم کتب اس موضوع کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟ ڈاکٹر محمد سمیر مرتضیٰ ایک مسلم اسکالر ہیں، جو اس موضوع پر کھل کر بات کرتے ہیں۔
مسلم دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد اب بھی اس معاملے کو یک سر رد کرتی ہے۔ ہم جنس پسند مرد اور خواتین مسلم معاشروں میں شدید نوعیت کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں، جب کہ بعض ممالک میں تو قانونی طور پر اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا موت تک رکھی گئی ہے۔
مختلف مسلم اسکالر ہم جنس پسندی سے متعلق مذہبی بیانیوں کو نئے انداز سے دیکھ رہے ہیں اور مذہبی احکامات کی موجودہ تشریحات کو نادرست سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ خیالیہ ابھی فقط ابتدا جیسا ہے اور اب بھی مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت ان پرانی تشریحات پر سوالات قبول کرتی نظر نہیں آتی۔
جرمنی کی فریڈرِش ناؤمان اشٹفٹُنگ کے تعاون سے جرمن شہر مائنز میں اس موضوع پر ایک مذاکرے کا اہتمام ہوا، جس میں اسلامی اسکالر ڈاکر محمد سمیر مرتضیٰ کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر مرتضی نے کہا کہ قرآن میں ہم جنس پرستی سے متعلق کچھ بھی طے شدہ احکامات موجود نہیں ہیں۔’’جب ہم ہم جنس پسندی کی بات کرتے ہیں، تو ہماری گفت گو زیادہ تر قومِ لوط کی کہانی سے جا ملتی ہے۔ مگر قوم لوط کی کہانی اصل میں ہم جنس پسندی کی کہانی نہیں تھی بلکہ بائی سیکسچوئل اور جنسی تشدد کی کہانی تھی۔ شاید مسلم برادری کو ہم جنس پسندوں سے متعلق اپنی روش کو ازسر نو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ہم جنس پسند اللہ، ملائیکہ، پیغمبروں، آسمانی کتب اور یوم آخر پر یقین رکھتا ہے، تو کیا وہ مسلمان نہیں؟ ہمیں اس موضوع پر ضرور بات کرنا چاہیے۔‘‘
ایسے ممالک جہاں ہم جنس پسند شادی کر سکتے ہیں
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں ہم جنس پسند قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اب تک کن ممالک میں ہم جنس پسندوں کی شادیوں کو ریاستی تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Yeh
ہالینڈ، سن دو ہزار ایک
ہالینڈ دنیا کا پہلا ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت دی گئی۔ ڈچ پارلیمان نے اس تناظر میں سن دو ہزار میں ایک قانون کی منظوری دی تھی۔ یکم اپریل سن دو ہزار ایک کو دنیا میں پہلی مرتبہ دو مردوں کے مابین شادی کی قانونی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ شادی تھی اس وقت ایمسٹرڈیم کے میئر جاب کوہن کی۔ اب ہالینڈ میں ہم جنس جوڑے بچوں کو بھی گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/M. Antonisse
بیلجیم، سن دو ہزار تین
ہالینڈ کا ہمسایہ ملک بیلجیم دنیا کا دوسرا ملک تھا، جہاں پارلیمان نے ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی اجازت دی گئی۔ سن دو ہزار تین میں ملکی پارلیمان نے قانون منظور کیا کہ خواتین یا مرد اگر آپس میں شادی کرتے ہیں تو انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے، جو شادی شدہ جوڑوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس قانون کے منظور ہونے کے تین برس بعد ہم جنس جوڑوں کو بچے گود لینے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Warnand
ارجنٹائن، سن دو ہزار دس
ارجنٹائن لاطینی امریکا کا پہلا جبکہ عالمی سطح پر دسواں ملک تھا، جہاں ہم جنسوں کے مابین شادی کو ریاستی تحفظ فراہم کیا گیا۔ جولائی سن دو ہزار دس میں ملکی سینیٹ میں یہ قانون 33 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا جبکہ 27 ووٹ اس کے خلاف دیے گئے۔ اسی برس پرتگال اور آئس لینڈ نے بھی ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی بنانے کے حوالے سے قوانین منظور کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/L. La Valle
ڈنمارک، سن دو ہزار بارہ
ڈنمارک کی پارلیمان نے جون سن دو ہزار بارہ میں بڑی اکثریت کے ساتھ ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی۔ اسکینڈے نیویا کا یہ چھوٹا سا ملک سن 1989 میں اس وقت خبروں کی زینت بنا تھا، جب وہاں ہم جنس جوڑوں کو سول پارٹنرشپ کے حقوق دیے گئے تھے۔ ڈنمارک میں سن دو ہزار نو سے ہم جنس پسندوں کو اجازت ہے کہ وہ بچے گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/CITYPRESS 24/H. Lundquist
نیوزی لینڈ، سن دو ہزار تیرہ
نیوزی لینڈ میں ہم جنس پسند مردوں اور خواتین کو شادی کی اجازت سن دو ہزار تیرہ میں ملی۔ یہ ایشیا پیسفک کا پہلا جبکہ دنیا کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کو شادی کی اجازت دی گئی۔ نیوزی لینڈ میں انیس اگست کو ہم جنس پسند خواتین لینلی بنڈال اور ایلی وانیک کی شادی ہوئی۔ فرانس نے بھی سن دو ہزار تیرہ میں ہم جنس پسندوں کو شادی کی قانونی اجازت دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Air New Zealand
آئر لینڈ، سن دو ہزار پندرہ
آئرلینڈ ایسا پہلا ملک ہے، جہاں ایک ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت کا قانون منظور ہوا۔ اس ریفرنڈم میں دو تہائی سے زائد اکثریت نے ہم جنسوں کے مابین شادی کی حمایت کی تو تب ہزاروں افراد نے دارالحکومت ڈبلن کی سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Crawley
امریکا، سن دو ہزار پندرہ
امریکا میں چھبیس جون سن دو ہزار پندرہ کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا کہ ملکی آئین ہم جنسوں کی مابین شادیوں کی قانونی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسی فیصلے کی بدولت امریکا بھر میں ہم جنس جوڑوں کے مابین شادی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس سے قبل بارہ برس تک امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس پسند افراد کے مابین شادی کو غیر آئینی قرار دیے رکھا تھا۔
جرمنی یورپ کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی گئی۔ تیس جون کو بنڈس ٹاگ میں 226 کے مقابلے میں یہ قانون 393 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ اگرچہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس قانون کے خلاف ووٹ دیا تاہم انہوں نے اس کے منظور کیے جانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/O. Messinger
آسٹریلیا، سن دو ہزار سترہ۔ اٹھارہ
آسٹریلوی میں ایک پوسٹل سروے کرایا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس ملک کی اکثریت ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی حمایت کرتی ہے تو ملکی پارلیمان نے دسمبر 2017 میں اس سلسلے میں ایک قانون منظور کر لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Hamilton
تائیوان، سن دو ہزار انیس
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک ہے، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ سترہ مئی سن دو ہزار سترہ کو ملکی پارلیمان نے اس حوالے سے ایک تاریخی مسودہ قانون منظور کیا۔ اس قانون کی منظوری پر صدر نے کہا کہ ’حقیقی برابری کی طرف یہ ایک بڑا قدم ہے‘۔
تصویر: dapd
10 تصاویر1 | 10
ڈاکٹر مرتضیٰ کے مطابق ہم جنس پسندوں کی جنسی رغبت ان کی مرضی یا منشا کی نہیں ہوتی بلکہ خدا کی تخلیق ہوتی ہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ چاہتے ہیں کہ مسلم اسکالرز اس موضوع پر سنجیدہ مکالمت کریں، ’’میرے خیال میں ہمیں بہت تحمل اور تدبر سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ آیا ہم جنس پسندوں کو لعن طعن کرنا کوئی درست عمل ہے؟ کیوں کہ جنسی رغبت، چاہے آپ ہیٹرو سیکسچوئل ہوں یا ہومو سیکسچوئل یا آپ کی مرضی پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ آپ اس فطرت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یعنی جیسا خدا نے آپ کو پیدا کیا۔ اگر خدا یہ فیصلہ کرتا ہے اور انسانوں کا اس طرح تخلیق کرتا ہے، تو ہمیں ہر حال میں مسلم کمیونیٹی میں اس بابت بات کرنا چاہیے۔‘‘
اس معاملے پر زیادہ تر مسلم دانش ور اتفاق رکھتے ہیں کہ انسان ’فطری طور پر ہیٹرو سیکسچوئل‘ پیدا ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک ہومو سیکسچوئلٹی فطرت کے اصولوں سے انحراف ہے، اسی تناظر میں وہ اسے قابل تعزیر جرم سمجھتے ہیں۔ مگر چند مسلم اسکالر بہ شمول ڈاکٹر مرتضیٰ سمجھتے ہیں کہ اس موضوع پر مسلم دنیا میں گفت گو کی ضرورت ہے، تاکہ اسلام کی تعلیمات سے متعلق غلط فہمیوں کا خاتمہ ہو سکے۔