1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے متعدد لیڈر گرفتار

10 ستمبر 2024

پولیس کے مطابق چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، تاہم پی ٹی آئی کا کہنا ہے اس سے زیادہ گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔ کچھ ارکان اسمبلی کو پارلیمنٹ کے باہر سے بھی گرفتار کیا گیا۔

فروری میں کوئٹہ میں پی ٹی آئی کے ایک مظاہرے کی تصویر
فروری میں کوئٹہ میں پی ٹی آئی کے ایک مظاہرے کی تصویرتصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو پیر کی رات گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس اور پاکستان تحریک انصاف دونوں نے ان گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے، تاہم دونوں کی جانب سے گرفتار لیڈروں کی تعداد کے بارے میں فراہم کی گئی تفصیلات یکساں نہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کو پولیس کے ایک ترجمان نے چار افراد کی گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ 13 افراد کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے باہر اور دیگر مقامات سے گرفتار کیا گیا۔

پی ٹی آئی کے لیڈر ذوالفقار بخاری نے کہا ہے کہ گرفتار ہونے والوں میں پی ٹی آئی کے چیئرمین گوہر علی خان اور سینیئر لیڈران شعیب شاہین اور شیر افضل مروت شامل ہیں۔

اس کے علاوہ آج قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران پی ٹی آئی کے لیڈر علی محمد خان کا کہنا تھا کہ صاحبزادہ حامد رضا، شفقت اعوان، عامر ڈوگر، شیخ وقار اکرم اور مولانہ نسیم کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

عمران خان کو سن 2022 میں ملک کی عسکری قیادت کے ساتھ اختلافات کے بعد تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور اب انہیں متعدد کیسز مین قانونی کارروائی کا سامنا ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

ٹی وی پر نشر کی جانے والی گزشتہ رات کی پارلیمنٹ کے باہر کی ویڈیوز میں پولیس کو پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو گاڑیوں میں دھکیلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس دوران قومی اسمبلی میں موجود پی ٹی آئی کے لیڈر زین قریشی نے ڈی ڈبلیو سے فون پر گفتگو کے دوران بتایا تھا کہ وہ اور ان کے کچھ دیگر ساتھی اسمبلی میں موجود ہیں، جسے ''پولیس نے گھیرے میں لے رکھا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق سے رابطہ کرکے انہیں صورتحال سے آگاہ کر دیا ہے لیکن ''ابھی تک اس سلسلے میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔‘‘

ان گرفتاریوں سے ایک دن قبل پی ٹی آئی نے ملکی دارالحکومت اسلام آباد کے مضافات میںں سنگجانی کے مقام پر ایک جلسہ منعقد کیا تھا۔ اس جلسے میں پی ٹی آئی کے بانی رہنما عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، جو ایک سال سے زائد عرصے سے جیل میں ہیں۔

اس جلسے کے شرکا اور پولیس کے مابین جھڑپیں بھی ہوئی تھیں اور پولیس کے مطابق اس دوران ایک سینیئر پولیس اہلکار زخمی ہو گیا تھا۔ پی ٹی آئی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ پولیس نے اس پر امن اجتماع کے شرکاء کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔

اس جلسے میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں، بالخصوص صوبے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ  علی امین گنڈا پور نے ملک کی موجودہ حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے سخت لہجہ اختیار کیا تھا۔

قوم 'قیدی نمبر 804' کے ساتھ کھڑی ہے، بیرسٹر گوہر خان

02:18

This browser does not support the video element.

پیر کو گنڈا پور کی گرفتاری کی خبریں بھی گردش کر رہی تھیں، تاہم مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق کئی گھںٹے منظر سے غائب رہنے کے بعد وہ آج منگل کے روز واپس پشاور پہنچ گئے۔

عمران خان کو سن 2022 میں ملک کی عسکری قیادت کے ساتھ اختلافات کے بعد تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور اب انہیں متعدد کیسز میں اپنے خلاف قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔ 

’پارلیمان کا تقدس پامال‘

پی ٹی آئی کے لیڈر عمر ایوب نے پیر کی رات پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کو ''قابل نفرت‘‘ امر قرار دیا۔ اسی طرح ذوالفقار بخاری نے بھی اپنے بیانات میں ان گرفتاریوں کو غیر قانونی ٹھہرایا۔

پی ٹی آئی کے رہنما سلمان اکرم راجا نے ارکان اسمبلی کی گرفتاریوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’جس طرح یہ گرفتاریاں کی گئی ہیں، ان سے پارلیمان کا تقدس پامال ہوا ہے۔‘‘

سیاسی تجزیہ کار حبیب اکرم کا ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا، ''جو حکومت پارلیمنٹ میں سے ارکان اسمبلی کو اٹھوا سکتی ہے، اس سے کے پی (خیبر پختونخوا) میں گورنر راج لگوانے کی امید رکھنا بعید از قیاس نہیں۔ مجھے نظر نہیں آتا کہ حکومت کی طرف سے حالات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، بلکہ وہ تو اس تناؤ میں اضافہ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔‘‘

اس حوالے سے دفاعی تجزیہ کار فاروق حمید خان کا کہنا تھا، ''یہ بات درست ہے کہ پی ٹی آئی کے جلسے میں کی جانے والی کئی تقریروں میں ریڈ لائن کراس کی گئی تھی، جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ تاہم جو مناظر ہم اسلام آباد میں دیکھ رہے ہیں وہ دراصل پی ٹی آئی کے کچھ لیڈروں کی طرف سے ریاست کو چیلنج کیے جانے پر ردعمل ہے۔‘‘

تنویر شہزاد (روئٹرز کے ساتھ)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں