اسلام آباد میں کم ہوتی ہوئی ہریالی کئی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ کچھ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ ترقیاتی اور تجارتی مقاصد کے لیےاس ہریالی کو ختم کیا جارہا ہے جب کہ سرکاری حکام اورکچھ ماہرین ان اعتراضات کوغلط قرار دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ انسٹیٹیوٹ آف اربنزم کے تحت منعقد ہونے والے ایک سیمینار کے شرکا کو منگل کے روز بتایا گیا کہ 1973 ء سے لے کر سن دو ہزار تک ک تقریبا 153 اسکوائر کلومیٹر کا ایریا، جہاں کبھی ہریالی، سبزہ اور نباتات ہوتے تھے، وہ ختم ہوگیا ہے۔
عائشہ مجید کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی، رہائشی علاقوں کا قیام، ترقیاتی کام، سٹرکوں کی تعمیر، انڈرپاسیز کی کھدائی، شاہراوں کی توسیع، کمرشل علاقوں کی تعمیر اور تجارتی تعمیراتی منصوبے وہ چند عوامل ہیں، جو اس ہریالی کے کم ہونے کے اسباب میں سے چند ہیں۔
عائشہ مجید کا دعوٰی تھا کہ مجموعی طور پر تین فیصد ہریالی کا علاقہ صرف 19 بڑے سڑکوں کی تعمیر یا توسیع یا ترمیم کی وجہ سے ختم ہوا ہے۔ اور اگر اس میں گرین بیلٹس پر قائم پارکنگ کو بھی شامل کر لیا جائے، تو پھر یہ شرح مزید بڑھ سکتی ہے۔ نیو ایریا، جس جگہ بنایا جا رہا ہے، وہ ہریالی سے بھرا ہوا تھا جبکہ سری نگر ہائی وے اور اسلام آباد ایکسپریس وے پر بھی کئی ایسے مقامات، جو ماضی میں سبزے اور نباتات سے بھرے ہوئے تھے۔
کبھی پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب نہایت سرسبز و شاداب ہوا کرتا تھاتصویر: Faqir Muhammad Waraich
تاہم کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ سارے ترقیاتی کام ماسٹر پلان کے تحت ہوئے ہیں اور گرین بیلٹ کو ختم نہیں کیا گیا ہے۔ سی ڈی اے کے ایک افسر سردار خان زمری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یہ تاثر غلط ہے کہ ہم نے گرین بیلٹ یا سبزے کو نقصان پہنچایا ہے۔ نیا بلیو ایریا ماسٹر پلان کے تحت بن رہا ہے اور اس میں ابھی مزید توسیع ہونی ہے۔ بالکل اسی طرح مختلف انڈرپاسیز یا سڑکوں میں جو توسیع ہوئی ہے، اس میں بھی ماحولیاتی قواعد کا خیال کیا گیا ہے۔ جب ماحول کے لیے کام کرنے والے کارکنان عدالت یا متعلقہ اداروں میں پہنچے، تو سی ڈی اے نے وہاں پر صحیح طریقے سے ماسٹر پلان کی وضاحت کی۔‘‘
سابق سیکریٹری برائے پلاننگ فضل اللہ قریشی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام آباد میں ہریالی اور نباتات کم ہوئے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ستر کی دہائی میں اسلام آباد کی آبادی بہت کم تھی۔ اب جب آبادی پھیلے گی تو نئی آبادیاں بھی قائم کرنا پڑیں گی۔ اس کے لیے وہ جگہیں، جو ہری بھری ہیں لیکن سرکار کی طرف سے متعین کردہ گرین بیلٹ کے زمرے میں نہیں آتی، ان کو ختم کرنا پڑے گا۔
ماحولیاتی آلودگی نے مرگلا کی وادی کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے تصویر: Arne Immanuel Bänsch/picture alliance/dpa
سابق سربراہ محمکہ جنگلات ناصر محمود کا کہنا ہے کہ سرکار کی طرف سے متعین کردہ جنگلات میں کمی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یہ غلط تاثر ہے کہ ہر سر پھرے علاقے کو ختم کرنا، گرین بیلٹ کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سی ڈی اے نے دارالحکومت کے کئی علاقوں میں میں کوئی ہاؤسنگ اسکیم تعمیر کرنے کے لیے زمین حاصل کی اور پھر اس زمین پر 30 تا 40 سال کوئی تعمیر نہیں ہوئی۔اسی دروان اس علاقے میں قدرتی طور پر ہریالی آگئی یا کسی نے درخت لگا دیے، لیکن یہ منطقی بات ہے کہ جب اس علاقے کو تعمیر کیا جائے گا، تو ہریالی کو ختم کرنا پڑے گا کیونکہ وہ ہریالی ماسٹر پلان کا حصہ نہیں ہے۔‘‘
پاکستان: ماحولیاتی تبدیلیوں کے مرچوں کی پیداوار پر اثرات
پاکستان مرچیں پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیاں روایتی فصلوں کی کاشت کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔ کُنری کو مرچوں کی پیداوار کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں صورتحال کیسی ہے؟ جانیے اس پکچر گیلری میں!
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS
یہ باپ اور بیٹا مرچوں کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں
رواں برس انتہائی موسمی حالات نے پاکستانی کسانوں کے لیے بہت بڑی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ یہ بات 40 سالہ کسان لیمن راج نے بھی محسوس کی ہے۔
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS
محنت ضائع ہوئی
لیمن راج کہتے ہیں، ’’پہلے پودے گرمی سے بری طرح متاثر ہوئے، پھر بارشیں ہوئیں اور موسم بالکل بدل گیا۔ ساری مرچیں گل سڑ گئی ہیں۔‘‘
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS
پہلے شدید گرمی پھر سیلاب
پاکستان میں بہت سے لوگوں کا انحصار زراعت پر ہے۔ ایک طرف تباہ کن گرمی فصلوں کو متاثر کر رہی ہے تو دوسری طرف شدید بارشوں نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ راج بتاتے ہیں، ’’جب میں چھوٹا تھا تو کبھی بھی اتنی شدید گرمی نہیں تھی۔ ہماری پیداوار بھرپور ہوتی تھی۔ اب پیداوار مسلسل سکڑتی جا رہی ہے۔‘‘
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS
مرچیں بچانے کے لیے کپاس کی قربانی
سیلاب آیا تو کسانوں کو بھی قربانی دینا پڑی۔ کسان فیصل گِل بتاتے ہیں، ’’ہم نے گڑھے کھود کر مرچ کے کھیتوں سے پانی کپاس کے کھیتوں کی طرف نکالا۔‘‘ اس طرح کم از کم مرچوں کی 30 فیصد فصل کو بچا لیا گیا۔ لیکن دوسری طرف کپاس کے کھیت برباد ہو گئے اور کسانوں کو بچی کچھی فصل کو آگ لگانا پڑی۔
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS
مرچوں کی پیداوار میں پاکستان کا مقام
اندازوں کے مطابق حالیہ سیلاب سے پاکستان کو 40 ارب ڈالر کا مادی نقصان ہوا ہے۔ پاکستان مرچوں کی پیداوار کے حوالے سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS
زراعت ریڑھ کی ہڈی
یہاں سالانہ 60 ہزار ہیکٹر پر تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار ٹن مرچیں کاشت کی جاتی ہیں۔ پاکستان خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہے کیونکہ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS
مارکیٹ کے لیے مرچیں خشک کرنا
مرچوں کی فروخت سے پہلے انہیں دھوپ میں خشک کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایرڈ زون ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر عطا اللہ خان کہتے ہیں، ’’یہ مسلسل تیسرا سال ہے کہ مرچوں کی فصل متاثر ہو رہی ہے۔‘‘
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS
پاکستان کے لیے بڑا چیلنج
عطا اللہ خان کہتے ہیں کہ موسمیاتی بیماریاں بھی اس فصل کی پیداوار کو تباہ کر رہی ہیں اور یہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS
پاکستان میں مرچوں کا گڑھ
مرچیں چننے اور سکھانے کے بعد انہیں بوریوں میں بند کر کے کُنری مارکیٹ تک لایا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ کی تحصیل کُنری کو مرچوں کا ’دارالحکومت‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں مرچوں کے پہاڑ دیکھ کر نہیں لگتا کہ ان کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے لیکن یہ نظر کا دھوکا ہے۔
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS
پیداوار میں کمی
نہ صرف کسان بلکہ تاجر بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ تاجر راجہ دائم کہتے ہیں، ’’گزشتہ سال اسی وقت یہاں کی مارکیٹ میں آٹھ ہزار سے 10 ہزار بوریاں تھیں۔ اس سال یہ بمشکل دو ہزار ہیں اور یہ پہلے ہفتے کا پہلا دن ہے۔