اسلام جرمنی کا حصہ ہے، ہم تاریخ کا رخ نہیں موڑ سکتے، شوئبلے
صائمہ حیدر
31 مارچ 2018
جرمنی میں لاکھوں مسلمان تارکین وطن پر ایک بحث میں ملکی پارلیمان کے صدر وولف گانگ شوئبلے نے کہا ہے کہ اب جبکہ مذہب اسلام جرمنی کا ایک حصہ بن چکا ہے، ہم تاریخ کا رخ نہیں موڑ سکتے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
اشتہار
جرمن فنک میڈیا گروپ کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی کی سیاسی جماعت سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والے سینیئر جرمن سیاستدان اور پارلیمان کے اسپیکر وولفگانگ شوئبلے نے کہا ہے کہ ہر ایک کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام جرمنی کا حصہ بن چکا ہے۔
اس تناظر میں شوئبلے چانسلر انگیلا میرکل کے نقش قدم پر ہی چل رہے ہیں۔ رواں ماہ کے وسط میں نو منتخب جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے ایک بیان میں کہا تھا،’’ نہیں۔ اسلام جرمنی کا حصہ نہیں ہے۔ جرمنی کا ارتقاء مسیحیت سے ہوا ہے۔‘‘
دوسری طرف جرمن چانسلر انگیلا میرکل سن 2015 سے کہتی آئی ہیں کہ اسلام جرمنی کا حصہ ہے۔
وولف گانگ شوئبلےتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sohn
تاہم شوئبلے نے یہ یاد دہانی بھی کرائی کہ جرمنی میں رہنے والے مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ جس ملک میں رہ رہے ہیں اُس کے سماجی اور ثقافتی ڈھانچے کی بُنت اسلامی روایات سے نہیں ہوئی اور یہ کہ جرمن عوام کو بھی یاد رکھنا ہو گا کہ مسلمان جرمنی کی آبادی کا ایک بڑھتا ہوا حصہ ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں پُر امن طریقے سے مل جل کر کام کرنا اور باہمی اختلافات کا احترام کرنا ہو گا۔ شوئبلے نے مزید کہا،’’ یہ ایک بڑا کام ہے۔ ایک لبرل سوسائٹی اُسوقت تک مستحکم رہتی ہے جب تک وہاں مختلف پس منظر رکھنے والے افراد میں باہمی تعلق اور اُنسیت قائم رہتی ہے۔‘‘
جرمنی میں قریب چار اعشاریہ پانچ ملین مسلمان آباد ہیں۔ سابق جرمن صدر کرسٹیان وولف نے سن دو ہزار دس میں پہلی مرتبہ کہا تھا کہ اسلام جرمنی کا حصہ ہے۔
جرمنی: زیر تربیت مہاجرین کا تعلق ان ممالک سے ہے
گزشتہ برس مجموعی طور پر نو ہزار تین سو تارکین وطن کو مختلف جرمن کمپنیوں میں فنی تربیت (آؤس بلڈُنگ) کے حصول کی اجازت ملی۔ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مندرجہ ذیل ممالک سے ہے.
تصویر: D. Kaufmann
۱۔ افغانستان
افغانستان سے تعلق رکھنے والے 3470 مہاجرین اور تارکین وطن مختلف جرمن کمپنوں میں زیر تربیت ہیں۔
تصویر: DW/A. Grunau
۲۔ شام
جرمنی میں شامی مہاجرین تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہیں، لیکن زیر تربیت مہاجرین کی تعداد محض ستائیس سو رہی، جو افغان پناہ گزینوں سے بھی کم ہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
۳۔ عراق
ملک بھر کی مختلف کمپنیوں میں آٹھ سو عراقی مہاجرین تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے سات سو دس تارکین وطن کو فنی تربیت کے حصول کے لیے جرمن کمپنیوں نے قبول کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
۵۔ ایران
جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایرانیوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن فنی تربیت حاصل کرنے والے ایرانی تارکین وطن تعداد (570) کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ پاکستان
چھٹے نمبر پر پاکستانی تارکین وطن آتے ہیں اور گزشتہ برس ساڑھے چار سو پاکستانی شہریوں کو جرمن کمپنیوں میں انٹرنشپ دی گئی۔
تصویر: DW/R. Fuchs
۷۔ صومالیہ
اس حوالے سے ساتواں نمبر صومالیہ کے تارکین وطن کا ہے۔ صومالیہ کے 320 تارکین وطن کو فنی تربیت فراہم کی گئی۔
تصویر: DW/A. Peltner
۸۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 280 پناہ گزینوں کو گزشتہ برس جرمنی میں فنی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔