اسلام مخالف جرمن سیاسی جماعت اے ایف ڈی کو جرمانے کا سامنا
10 جنوری 2020
برلن کی پارلیمانی انتظامی عدالت نے اسلام اور مہاجرین مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی پر بھاری جرمانہ عائد کیا ہے۔ اس پارٹی کو انتخابی مہم میں غیر قانونی عطیہ وصول کرنے کے اسکینڈل کا سامنا تھا۔
اشتہار
دائیں بازو کی سخت نظریات کی حامل جرمن سیاسی پارٹی AfD پر یہ جرمانہ ملکی پارلیمنٹ کی جانب سے عائد کیا گیا ہے۔ جرمانے کا حجم دو لاکھ انہتر ہزار یورو (تقریباً تین لاکھ امریکی ڈالر) ہے۔ اس جرمانے کی وجہ سوئٹزرلینڈ کی تعلقات عامہ کی اشتہاری کمپنی کے ذریعے مکمل کی گئی اشتہاری مہم تھی۔
عطیے کی رقم سن 2016 میں اے ایف ڈی پارٹی کے شریک سربراہ ژؤرگ میوتھن کو دی گئی تھی۔ میوتھن نے پارلیمنٹ کی انتظامی عدالت کے سامنے دیے گئے بیان میں کہا کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ سوئٹزرلینڈ میں کسی سے عطیہ لینا ممنوع ہے اور یہ سب اُن کے ناتجربے کاری کا نتیجہ تھا۔
حاصل کردہ عطیے سے انتخابی مہم کے دوران اشتہار بازی کی گئی تھی۔ اشتہاری مواد گول اے جی نامی کمپنی کے توسط سے حاصل کیا گیا۔ ان کے حصول کے لیے جو رقم اے ایف ڈی کو عطیے کے طور پر حاصل ہوئی وہ نواسی ہزار یورو تھی۔ اس طرح جرمن پارلیمنٹ نے جو جرمانہ عائد کیا ہے وہ عطیے میں ملنے والی رقم کا تین گنا ہے۔ پارٹی نے اشتہارات باڈن ورٹمبرگ کے ریاستی انتخابات کے لیے حاصل کیے تھے۔
جرمن پارلیمنٹ بنڈس ٹاگ کے فیصلے میں تحریر کیا گیا کہ اے ایف ڈی کے لیے سوئٹزرلینڈ کی اشتہاری کمپنی گول اے جی نے جو پوسٹرز، دستی پرچے اور اخباری اشتہار اشاعت کے بعد فراہم کیے تھے، وہ غیرقانونی تھے۔ فیصلے میں واضح کیا گیا کہ ان کے لیے جو رقوم پارٹی نے خرچ کی تھیں، اُن کا ذریعہ بھی انتظامی عدالت کو نہیں بتایا گیا۔
یہ امر اہم ہے کہ جرمن سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو یورپی یونین سے باہر سے کسی بھی قسم کے عطیات کو وصول کرنا ممنوع ہے۔ سوئٹزرلینڈ یورپی یونین میں شامل نہیں ہے۔ اس قانون کے تحت امیدوار کو ایسا کوئی عطیہ لیتے وقت اُس کے ذریعے کے بارے میں آگہی رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ ژؤرگ میوتھن نے عطیہ وصول تو کرلیا لیکن اُس کے جائز اور ناجائز ہونے کی تصدیق نہیں کی۔
ع ح ⁄ (اے ایف پی، ڈی پی اے)
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔