مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ ایک نظر ڈالتے ہیں اس پارٹی کے بارے میں اہم حقائق پر۔
اشتہار
جرمنی ميں چوبیس ستمبر کے پارلیمانی انتخابات میں مرکزی سیاسی پارٹیوں کے علاوہ متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) کی بالخصوص مہاجرت اور یورپی یونین مخالف نعرے بازی کی وجہ سے اس کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ سیاسی تجزيہ کاروں کے خیال میں اس مرتبہ یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔ لیکن مرکزی سیاسی پارٹیاں حکومت سازی کے سلسلے میں اے ایف ڈی کے ساتھ سیاسی اتحاد کو یکسر مسترد کر چکی ہیں۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
مہاجرت مخالف
یورپ میں مہاجرین کے حالیہ بحران کے نتیجے میں جرمنی میں بھی لاکھوں مہاجرین آئے ہیں۔ اے ایف ڈی جرمنی کی پہلی سیاسی جماعت تھی، جس نے اس بحران میں حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس موقف کی وجہ سے اس پارٹی کی عوامی سطح پر مقبولیت میں اضافہ ہوا اور اس نے علاقائی انتخابات میں کئی کامیابیاں بھی سمیٹيں۔
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ اس پارٹی کا یہ کہنا بھی ہے کہ ايسے افراد کی مالیاتی مدد کرتے ہوئے ان کے جرمنی سے نکل جانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
اے ایف ڈی کے مطابق جرمنی میں کم مہاجرین کو پناہ دی جانا چاہیے اور ان پر یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ جرمن معاشرے میں مکمل انضمام کی خاطر کوشش کریں۔ یہ پارٹی دو ٹوک الفاظ میں کہتی ہے کہ اسلام جرمن معاشرے کا حصہ نہیں ہے۔ اے ایف ڈی جرمن زبان، روایتی جرمن ثقافت اور اقدار کے فروغ پر زور دیتی ہے۔
اے ایف ڈی کا اجلاس، کولون میں مظاہرے
00:44
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔
اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ممالک کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔
تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تاہم سن دو ہزار چودہ میں یورپی پارلیمان کے انتخابات میں یہ پارٹی 7.1 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ یہ اس پارٹی کی پہلی انتخابی کامیابی تھی۔ یہ پارٹی ’متحدہ یورپ‘ کے نظریے کی نفی کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ فیصلہ سازی کا بنیادی حق ملکوں کی حکومتوں کے پاس ہونا چاہیے۔ اے ایف ڈی یورو کرنسی کے خاتمے کا نعرہ بھی لگاتی ہے۔
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں کے مطابق یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
بریگزٹ اور امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے تناظر میں کئی ماہر سیاسیات نے کہا ہے کہ جس طرح دیگر ممالک میں عوامیت پسندی کی تحریک مضبوط ہوئی ہے، ویسے جرمنی میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں چوبیس ستمبر کے پارلیمانی انتخابات میں اس پارٹی کا جرمن پارلیمان میں رسائی حاصل کرنا مشکل نہیں ہو گا۔
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے تیرہ کی علاقائی پارلیمان میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ علاقائی سطح پر ہونے والے حالیہ انتخابات میں اس پارٹی کی کامیابیاں غیر معمولی ثابت ہوئی ہیں۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔ اسی لیے آئندہ وفاقی پارلیمانی انتخابات میں اس پارٹی کو غیر متوقع طور پر کامیابیاں حاصل ہو سکتی ہیں۔
جرمنی میں انتخابی پوسٹرز کیا کہتے ہیں؟
دنیا کے جس ملک میں بھی الیکشن کا وقت قریب آتا ہے، سیاسی رہنماؤں کے عوام سے اُن کی حالت بہتر بنانے کے وعدوں میں بھی تیزی آ جاتی ہے۔ دیکھیے کہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی میں انتخابی پوسٹرز کیا وعدے کرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/B.Pedersen
کرسچین ڈیموکریٹک یونین
تین بار چانسلر کے عہدے پر فائز رہنے والی انگیلا میرکل ایک بار پھر انتخابی میدان میں ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت سی ڈی یو بیس ملین یورو خرچ کر کے جرمنی بھر میں اب تک قریب بائیس ہزار پوسٹر لگا چکی ہے۔ اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’ایک ایسے جرمنی کے لیے جہاں ہم اچھی طرح اور شوق سے رہ سکیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/B.Pedersen
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی
جرمنی کی ایک اہم اپوزیشن جماعت ایس پی ڈی نے اپنے انتخابی پوسٹر پر چانسلرشپ کے امیدوار مارٹن شُلس کی تصویر لگائی ہے۔ اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’مستقبل کو نئے تصورات کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک ایسے شخص کی بھی، جو ان پر عمل درآمد کر سکے۔‘‘
فری ڈیموکریٹک پارٹی
ترقی پسندوں کی لبرل جماعت ایف ڈی پی کی الیکشن مہم پر پانچ ملین یورو خرچ کیے گئے ہیں۔ پارٹی سربراہ کرسٹیان لِنڈنر کی تصویر والے اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’بے صبری بھی ایک خوبی ہے۔‘‘
گرین پارٹی
ماحول پسندوں کی جرمن سیاسی جماعت گرین پارٹی کے اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’ماحول سب کچھ نہیں ہے لیکن ماحول کے بغیر کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔‘‘
متبادل برائے جرمنی
جرمنی کی مہاجرین اور اسلام مخالف جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی یا اے ایف ڈی کے اس انتخابی پوسٹر پر ایک حاملہ عورت کی تصویر کے ساتھ یہ لکھا ہوا ہے، ’’نئے جرمن؟ ہم خود پیدا کریں گے۔ جرمنی، ہمت کرو!‘‘
لیفٹ پارٹی یا ’دی لِنکے‘
اس جرمن سیاسی جماعت نے اپنے اس پوسٹر کے لیے مختلف خطِ تحریر استعمال کیے ہیں۔ اس پوسٹر پر مختلف رنگوں میں لکھا ہے، ’’واضح طور پر دائیں بازو کی نفرت انگیزی کے خلاف، دی لِنکے‘‘
6 تصاویر1 | 6
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تاہم وزارت داخلہ کے مطابق اے ایف ڈی کو ایک غیر آئینی جماعت قرار نہیں دیا جا سکتا جبکہ اس پارٹی کی مسلسل نگرانی بھی نہیں کی جاتی ہے۔ یہ پارٹی روایتی جرمن گھرانے کے نظریے کی حامی ہے اور اسقاط حمل کے بھی خلاف ہے۔
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
جرمن الیکشن 2017، کب کیا ہو گا؟ ایک مختصر جائزہ
رواں برس جرمن سیاست کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اسی سال فیصلہ ہو گا کہ اگلا جرمن چانسلر کون ہو گا؟ اس مرتبہ چوبیس ستمبر کے وفاقی الیکشن میں 61.5 ملین اہل ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
وفاقی الیکشن کا سال
کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ انگیلا میرکل چوتھی مرتبہ جرمنی کی چانسلر بننے کی دوڑ میں شامل ہیں تو دوسری طرف عوامیت پسند سیاسی پارٹی اے ایف ڈی مہاجرت کے بحران کا فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی نکلے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ سن دو ہزار سترہ کے اختتام تک جرمن سیاست کا منظر نامہ بدل جائے گا۔
تصویر: Getty Images
چھبیس مارچ، زارلینڈ کے صوبائی الیکشن
فرانس کے ساتھ متصل چھوٹے سے جرمن صوبے زارلینڈ کے عوام نے چھبیس مارچ کو اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اکاون نشستوں پر مشتمل اس صوبے کی پارلیمان کی وزیر اعلیٰ کرسچن ڈیموکریٹ Annegret Kramp Karrenbauer ہیں۔ وہ تیسری مرتبہ بھی اس عہدے پر فائز ہونے میں کامیاب ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Becker&Bredel
سات مئی، وفاقی جرمن ریاست شلیسوِگ ہولسٹائن کے الیکشن
شلیسوِگ ہولسٹائن کے الیکشن میں میرکل کی جماعت سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری جبکہ اس مرتبہ اے ایف ڈی پہلی مرتبہ اس صوبے کی پارلیمان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس صوبے میں سکونت پذیر ڈینش شہریوں کو بھی اس الیکشن میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔ گزشتہ انتخابات میں 69 نشستوں پر مشتمل اس صوبے کی پارلیمان میں ایک ڈینش اقلیتی پارٹی تین نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Rehder
چودہ مئی، نارتھ رائن ویسٹ فلیا میں انتخابات میں میرکل کی غیر معمولی کامیابی
جرمنی کی مغربی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فلیا میں چودہ مئی کے علاقائی الیکشن میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت نے میدان مار لیا۔ یہ جرمنی کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے، جہاں سترہ اعشاریہ پانچ ملین نفوس آباد ہیں۔ اس صوبے کے الیکشن وفاقی انتخابات پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ جو پارٹی اس صوبے میں اچھی کارکردگی دکھاتی ہے، اس کے وفاقی الیکشن میں کامیابی کے امکانات بھی روشن ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
انیس جون، ’کون سی پارٹیاں الیکشن لڑنا چاہتی ہیں‘
وفاقی الیکشن سے ستانوے دن قبل ایسی تمام سیاسی پارٹیوں کو وفاقی ریٹرننگ آفیسر کو باقاعدہ طور پر بتانا ہوتا ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتی ہیں۔ اس مرتبہ انیس جون کی شام چھ بجے تک الیکشن میں حصہ لینے کی خواہمشند تمام پارٹیوں نے اپنی درخواستیں جمع کرا دیں۔ جرمن دفتر شماریات کے سربراہ Roderich Egeler الیکشن کی عمل کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Burgi
سات جولائی فیصلے کا دن، ’کون سی سیاسی جماعتیں اہل ہیں‘
اس مرتبہ جرمن وفاقی انتخابات سے 79 دن قبل ایسی سیاسی پارٹیوں کے ناموں کا اعلان کر دیا گیا، جو الیکشن لڑنے کی اہل ہیں۔ اگر کسی پارٹی کو وفاقی ریٹرننگ آفیسر کے اس فیصلے پر اعتراض ہوتا تو وہ چار دنوں کے اندر اندر آئینی عدالت سے رجوع کر سکتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
سترہ جولائی، امیدواروں کی فہرست کی تیاری کا آخری دن
وفاقی الیکشن سے 69 دن پہلے تمام سیاسی جماعتوں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ان کا کون سا امیدوار کون سے حلقے سے انتخابات میں حصہ لے گا۔ اس مرتبہ سترہ جولائی تک تمام پارٹیوں نے اس تناظر میں اپنی فہرستیں الیکشن حکام کے حوالے کر دیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
ستائیس جولائی، آئینی عدالت کے فیصلے کا دن
وفاقی ریٹرننگ آفیسر نے اگر کسی چھوٹی سیاسی پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکا تھا اور اس نے آئینی عدالت سے رجوع کیا تھا تو ستائیس جولائی کو جرمنی کی آئینی عدالت فیصلہ سنانا تھا کہ وہ پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کی اہل ہے یا نہیں۔ تاہم اس مرتبہ کسی پارٹی الیکشن میں حصہ لینے سے نہیں روکا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Steinberg
تیرہ اگست، انتخابی مہم کے باقاعدہ آغاز کا دن
جرمنی میں سیاسی پارٹیاں اپنی انتخابی مہموں کا آغاز صرف تبھی کر سکتی ہیں جب الیکشن کی تاریخ میں چھ ہفتوں سے ایک دم کم رہ جائے۔ کئی ممالک میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ جرمنی میں اس مرتبہ تیرہ اگست سے سیاسی پارٹیوں نے باقاعدہ طور پر اپنی اپنی انتخابی مہموں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
بیس اگست، کون ووٹ ڈالنے کا اہل ہے؟
جرمنی میں وفاقی الیکشن سے قریب ایک ماہ قبل ووٹر لسٹ تیار کر لی جاتی ہے۔ جرمنی میں اٹھارہ برس یا اس سے زائد عمر کا ہر شہری جنرل الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا اہل ہوتا ہے۔ یوں جرمنی میں اہل ووٹرز کی تعداد تقریبا 61.5 ملین بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.-D. Gabbert
تین ستمبر، الیکشن سے تین ہفتے قبل
جرمنی میں وفاقی الیکشن سے تین ہفتے قبل تمام ووٹرز کو بذریعہ ڈاک مطلع کر دیا جاتا ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ ایسے شہری جنہوں نے ابھی تک اپنا اندارج نہیں کرایا، وہ اس موقع پر ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کرانے کی درخواست کر سکتے ہیں۔ اسی دوران ایسے ووٹر جو ڈاک کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہتے ہیں، انہیں بھی الیکشن حکام کو مطلع کرنا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Goldmann
اٹھارہ ستمبر، ووٹنگ کے عمل کی تیاری شروع
الیکشن سے ایک ہفتہ قبل بیلٹ پیپرز کی تقسیم، پولنگ بوتھوں کے قیام اور دیگرسازوسامان کے حوالے سے کام میں تیزی آ جاتی ہے۔ تربیت یافتہ عملہ ان تمام کاموں کی نگرانی کرتا ہے۔ اسی دوران مقامی انتظامیہ کو ووٹرز کو مطلع کرنا ہوتا ہے کہ انہیں ووٹ ڈالنے کے لیے کس مقام پر پہنچنا ہے۔ پولنگ کے 36 گھنٹے قبل تک شہریوں کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ووٹر لسٹ میں اپنا نام درج کرا لیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Goldmann
چوبیس ستمبر، ووٹنگ کا دن
اس برس چوبیس ستمبر کے دن جرمنی میں وفاقی انتخابات کے سلسلے میں پولنگ کی جائے گی۔ اس دن اسکول، کمیونٹی سینٹرز اور بڑے بڑے ہالوں کے علاوہ دیگر کئی مقامات کو بھی پولنگ اسٹیشنوں میں بدل دیا جائے گا۔ پولنگ کا یہ عمل صبح آٹھ بجے تا شام چھ بجے جاری رہے گا۔ اسی رات ہی الیکشن کے غیر حتمی نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پچیس ستمبر، خوشیاں اور غم
الیکشن حکام کی طرف سے تمام ووٹوں کی حتمی گنتی کے بعد الیکشن کے اگلے دن ہی باضابطہ سرکاری نتائج کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس موقع پر کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں خوشیاں مناتی ہیں جبکہ شکست خوردہ کچھ افسردہ ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
چوبیس اکتوبر، نئی جرمن پارلیمان کا اجلاس
جرمنی میں نئی منتخب پارلیمان کا پہلا اجلاس الیکشن کے دن کے ایک ماہ کے اندر اندر ہونا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ نئی پارلیمان کا اجلاس چوبیس اکتوبر سے قبل ہی منعقد کیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر حکومت سازی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں اتحاد کی خاطر مذاکرات شروع کرتی ہیں اور اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد ممبر پارلیمان چانسلر کے عہدے کے لیے خفیہ طور پر رائے شماری کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چوبیس نومبر، اگر کوئی شکایت ہے تو؟
جرمنی میں اگر کسی پارٹی نے الیکشن کے نتائج کو چیلنج کرنا ہوتا ہے تو اس کے لیے دو ماہ کا وقت ہوتا ہے۔ اس مرتبہ ایسی کسی شکایت کو چوبیس نومبر سے قبل ہی درج کرانا ہو گا۔ جرمن وفاقی صدر، سیاسی پارٹیوں، الیکشن کمشنر (تصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں) یا کوئی بھی ووٹر انتخابات کے نتائج کو چیلنج کر سکتا ہے۔