اسلام، مہاجرین مخالف جرمن جماعت: انٹیلیجنس کو تفتیش کی اجازت
9 مارچ 2022
جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس سروس دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے خلاف چھان بین کر سکتی ہے۔ اسلام اور مہاجرین کی مخالفت کرنے والی پارٹی ’متبادل برائے جرمنی‘ کے خلاف یہ فیصلہ کولون کی ایک عدالت نے سنایا۔
اشتہار
کولون شہر کی ایک عدالت نے منگل آٹھ مارچ کے روز اپنے فیصلے میں کہا کہ جرمنی کی تحفظ آئین کا وفاقی دفتر کہلانے والی داخلی انٹیلیجنس سروس (BfV) کا اس رائٹ ونگ پاپولسٹ پارٹی کو ایک 'مشکوک گروہ‘ قرار دینے کا فیصلہ ملکی آئین کے مطابق ہے۔ جرمنی میں دائیں بازو کی اس سب سے بڑی پاپولسٹ جماعت کو بی ایف وی نے اس لیے ایک 'مشکوک سیاسی گروپ‘ قرار دیا تھا کہ اس کی نگرانی اور اس کے خلاف زیادہ تفصیل سے چھان بین کی جا سکے۔
داخلی سیکرٹ سروس کا یہ اقدام اس پارٹی کے لیے بہت بڑا سیاسی دھچکہ تھا اور اسی لیے 'متبادل برائے جرمنی‘ نے اس اقدام کو بنیاد بنا کر تحفط آئین کے وفاقی دفتر کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ کولون کی عدالت نے تاہم کہا کہ بی ایف وی کا کام ملک میں انتہا پسند گروپوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہے اور اس کا 'الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ‘ کے بارے میں اقدام اور چھان بین جرمن آئین کے منافی نہیں۔
عدالت نے مزید کیا کہا؟
'متبادل برائے جرمنی‘ کی طرف سے ملکی حکام اور میڈیا پر یہ کہہ کر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ اس پارٹی کو انتہا پسند جماعت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ پارٹی کی یہ شکایت اس وقت شدید ہو گئی تھی، جب تقریباﹰ ایک سال پہلے داخلی سیکرٹ سروس نے اے ایف ڈی کو 'مشکوک گروہ‘ قرار دے دیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ اس عوامیت پسند پارٹی کے ارکان اپنے غیر آئینی رجحانات کے 'کافی حقیقی اشارے‘ دے چکے ہیں۔ عدالت نے اس بارے میں اس جماعت کے ونگ نامی اس دھڑے کا بھی خاص طور پر ذکر کیا، جسے دو سال قبل تحلیل کر دیا گیا تھا مگر جس کے ارکان اب بھی اے ایف ڈی کی سیاست پر کافی زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ عدالت نے اے ایف ڈی کے یوتھ ونگ 'اے جے‘ (الٹرنیٹیو یوتھ) کے ارکان کی سوچ کا بھی بطور خاص ذکر کیا۔
اشتہار
جرمن شہریت کا آئین سے متصادم فہم
اپنے فیصلے میں عدالت نے جو ایک اور بہت اہم بات کہی، وہ یہ تھی کہ اے ایف ڈی کے ونگ اور اے جے نامی دھڑوں کی جرمن شہریت کے بارے میں سمجھ ایک بنیادی سیاسی سوچ کے طور پر نسلی شناخت سے جڑی ہوئی ہے۔
اس سوچ کے مطابق، ''یہ دونوں دھڑے اس امر کے قائل ہیں کہ جرمن نسلی شناخت کی حفاظت کی جانا چاہیے اور اسی لیے غیر ملکیوں کو جہاں تک ممکن ہو، جرمن شہریت کے حصول سے دور ہی رکھا جانا چاہیے۔ یہ سوچ نہ صرف ایک مردم بیزار انتشار کا اشارہ دیتی ہے بلکہ یہ وفاقی جرمن ریاست کی آئینی تعریف کے بھی منافی ہے۔‘‘
اے ایف ڈی کا ردعمل
کولون کی عدالت نے اپنے فیصلے میں 'متبادل برائے جرمنی‘ کو یہ حق بھی دیا کہ وہ چاہے توا س فیصلے کے خلاف اپیل بھی کر سکتی ہے۔ فیصلے کے بعد اے ایف ڈی نے اشارہ دیا کہ وہ اپنے لیے تمام قانونی امکانات کا جائزہ لے گی، تاکہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جا سکے۔
اے ایف ڈی کے دو شریک سربراہان میں سے ایک ٹِینو شرُوپّلا نے اپنے ردعمل میں کہا کہ وہ اس عدالتی فیصلے پر حیران ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ہم عدالت کے نقطہ نظر سے متفق نہیں اور تفصیلی تحریری فیصلہ آنے کے بعد ہی اپنے آئندہ قانونی لائحہ عمل کا تعین کریں گے۔‘‘
الیکشن میں دس فیصد سے زیادہ حمایت
'متبادل برائے جرمنی‘ کو گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والے قومی الیکشن میں 10.3 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہوئی تھی۔ یہ شرح اس پارٹی کو 2017ء کے قومی انتخابات میں حاصل ہونے والی عوامی تائید سے دو فیصد کم تھی۔
ملک میں اسلام اور مہاجرین کی آمد کی مخالفت کر کے جرمن ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے والی یہ جماعت اپنی صفوں میں کافی حد تک اختلافات اور تقسیم کا شکار بھی ہے۔ اس پارٹی کے ایک مرکزی رہنما یورگ موئتھن جنوری میں یہ کہہ کر مستعفی ہو گئے تھے کہ اے ایف ڈی کا دائیں باز وکی طرف جھکاؤ بہت ہی زیادہ ہو چکا ہے۔
م م / ع آ (ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز)
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔