یورپ میں اپنی شناخت کے حوالے سے تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ آسٹریا میں ایک ایسی ہی تحریک ’ہپسٹر رائٹ‘ کے نام سے بہت نمایاں ہو رہی ہے۔ ان کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ مورگن میکر ویانا سے رپورٹ کر رہے ہیں۔
اشتہار
نصف شب کا وقت رہا ہو گا جب آسٹریا کے کچھ نوجوانوں نے ملکہ ماریا تھریسا کے مجسمے کو نقاب پہنا دیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک پوسٹر بھی آویزاں کیا جس پر تحریر تھا،’’ اسلام پسندی؟ جی نہیں شکریہ۔‘‘
ان نوجوانوں کا تعلق آسٹریا میں جاری شناختی تحریک ’ہِپسٹر رائٹ‘ سے تھا۔
ہپسر رائٹ نامی تحریک کے ارکان میڈیا سے دوستانہ رویہ رکھتے ہیں اور انتہائی دائیں بازو کے قوم پرستوں کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ایسی ہی ایک تحریک امریکا میں ’آلٹ رائٹ‘ کے نام کی بھی ہے۔ لیکن جہاں امریکی تحریک اپنے پیغام کے فروغ کے لیے انٹر نیٹ کا استعمال کرتی ہے وہیں ’ہپسٹر رائٹ‘ سڑکوں اور گلیوں میں عملی مظاہرے کر کے یہ کام کر رہی ہے۔
دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اس تحریک کے ارکان نے جنوبی آسٹریا میں گراٹز گرین پارٹی کے ہیڈکوارٹر کی چھت پر نقلی خون سے چھڑکاؤ کیا اور پھر بڑے بڑے بینروں سے ڈھک دیا۔ اسی طرح ویانا میں ایک تھیٹر ڈرامے کو بھی سبو تاژ کیا جس میں مہاجرین کام کر رہے تھے۔ اس دوران ایسے پمفلٹ بھی بانٹے گئے جن پر لکھا تھا،’’کثیرالتمدنی ہلاکت خیز ہے۔‘‘
تاہم ہپسٹر رائٹ‘ تارکین وطن کے کتنے خلاف ہیں یہ بات اس وقت زیادہ واضح ہوئی جب تحریک کے شریک رہنما مارٹن زیلنر نے ’یورپ کے دفاع‘ کی غرض سے بحیرہ روم پار کرنے والے تارکین وطن کو روکنے کے لیے ایک چارٹرڈ بحری جہاز روانہ کیا۔
گزشتہ ہفتے آسٹریا کے شہر گراٹز میں تحریک کے سترہ ارکان اور حمایتیوں کو ترک باشندوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور مجرمانہ تنظیم بنانے کے الزام سے بری کیا گيا تھا۔
ہپسٹر رائٹ کے ارکان کا موقف ہے کہ وہ نسل پرست نہیں ہیں۔ تاہم اُن کے تحفظات جرمن تنظیم ’پیگیڈا‘ سمیت دیگر دائیں بازو کی احتجاجی تنظیموں کی ہی باز گشت ہیں۔
یہ تحریک ایک ہم نسل یورپ کے حق میں ہے۔ اس کے ارکان کا ماننا ہے کہ بر اعظم یورپ کو ایک ’اسلامی ملک‘ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ’ہپسٹر رائٹ‘ نامی یہ تحریک ’ عظیم متبادل‘ نظریے کا پرچار بھی کر رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ رفتہ رفتہ سفید نسل کے یورپی باشندوں کی جگہ مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ سے ہجرت کر کے آنے والے افراد لے لیں گے۔
یہ افراد ’ہمہ گیر یورپی موومنٹ‘ میں شامل ہیں جس کا آغاز سن 2003 میں فرانس سے ہوا تھا لیکن حال ہی میں آسٹریا میں اس کی شاخ نے خاصی توجہ حاصل کی ہے۔
ص ح / ع س
’مہاجرین کے روپ میں مسلمان حملہ آور یورپ آ رہے ہیں‘
تیسری مرتبہ ہنگری کے وزیراعظم منتخب ہونے والے وکٹور اوربان یورپی ممالک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف اٹھنے والی نمائندہ آواز رہے ہیں۔ تارکین وطن کو ’زہر‘ اور مہاجرت کو ’حملہ‘ قرار دینے والے اوربان تنقید سے کبھی نہیں ڈرے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’مہاجرین کے روپ میں مسلم حملہ آور‘
اوربان نے جرمن روزنامے ’دی بلڈ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’میں ان لوگوں کو مسلم تارکین وطن نہیں بلکہ مسلمان حملہ آور سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ آئے یہ مسلمان مہاجر ہمیں متوازی معاشروں کی طرف لے کر جائیں گے کیوں کہ مسیحی اور مسلم سماج کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔‘‘ اوربان کا کہنا تھا کہ متنوع ثقافت محض ایک واہمہ ہے۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
’مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں‘
جرمن اخبار ’دی بلڈ‘ کے اس سوال پر کہ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ جرمنی تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرے لیکن ہنگری چند کو بھی نہیں، اوربان نے کچھ یوں رد عمل ظاہر کیا،’’ مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں۔ مہاجرت سے ہنگری کی خود مختاری اور ثقافتی اقدار کو خطرہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’مہاجرت زہر ہے‘
یہ پہلی بار نہیں جب ہنگری کے اس رہنما نے مہاجرت پر تنقید کی ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھی اپنے ایک بیان میں اوربان نے کہا تھا کہ ہنگری کو اپنے مستقبل یا معیشت یا ملکی آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی ایک بھی مہاجر کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا،’’ہمارے لیے مہاجرت حل نہیں بلکہ مسئلہ ہے، دوا نہیں بلکہ زہر ہے۔ ہمیں تارکین وطن کی ضرورت نہیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/P. Gorondi
’دہشت گردی اور ہم جنس پرستی کی درآمد‘
وکٹور اوربان نے سن 2016 کے اوائل میں بلڈ اخبار کو بتایا تھا،’’اگر آپ مشرق وسطیٰ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ شدہ تارکین وطن کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنے ملک میں دہشت گردی، سامیت دشمنی، جرائم اور ہم جنس پرستی کو در آمد کر رہے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘
اوربان نے یورپی یونین کے رکن ریاستوں میں مہاجرین کی تقسیم کے کوٹے کے منصوبے پر بھی متعدد بار تنقید کی ہے۔ سن 2015 میں یورپی یونین سے متعلق خبریں اور تجزیے شائع کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Bozon
متوازی معاشرے
پولینڈ اور آسٹریا جیسی ریاستیں بھی مہاجرین کے حوالے سے ہنگری جیسے ہی تحفظات رکھتی ہیں اور یوں اوربان کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ سن 2015 میں اسپین کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں اوربان کا کہنا تھا،’’ہم کس قسم کا یورپ چاہتے ہیں۔ متوازی معاشرے؟ کیا ہم چاہتے ہیں مسلمان اور مسیحی افراد ساتھ ساتھ رہیں؟‘‘