اسلام پسند شامی باغیوں کا عسکری سربراہ خودکش حملے میں ہلاک
24 اپریل 2016لبنانی دارالحکومت بیروت سے اتوار چوبیس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ احرارالشام کے عسکری مرکز پر یہ خودکش بم دھماکا ہفتہ تئیس اپریل کو رات گئے کیا گیا۔
اس بم دھماکے میں حملہ آور کے علاوہ ماجد حسین الصادق اور اس کے کم از کم تین دیگر سینیئر ساتھی بھی ہلاک ہو گئے۔
سیریئن آبزرویٹری کی طرف سے اپنے ذرائع کی مصدقہ اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے آج بیروت میں بتایا گیا کہ شامی باغیوں کے اسلام پسند دھڑوں میں سے احرارالشام کے سربراہ الصادق کو صوبے ادلب کے اسی نام کے دارالحکومت سے شمال مشرق کی طرف بِنِش Binnish کے قصبے میں اس گروہ کے ہیڈکوارڑ میں ہلاک کیا گیا۔
آبزرویٹری کے مطابق اس حملے میں ایک نامعلوم حملہ آور ایک موٹر سائیکل پر اس گروپ کے مرکزی ٹھکانے پر پہنچا اور اپنی موٹر سائیکل کھڑی کر کے وہاں موجود احرارالشام کے جنگجوؤں کے ایک گروپ کی طرف بڑھا، ’’وہاں پہنچ کر اس حملہ آور نے، جو ایک بارودی جیکٹ پہنے ہوئے تھا، خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق فی الحال یہ واضح نہیں کہ اس خودکش حملے کا ذمے دار کون سا عسکری پسند گروپ یا تنظیم ہے۔
احرارالشام کا عسکری سربراہ ماجد حسین الصادق اسلام ابوحسین بھی کہلاتا تھا اور وہ شامی فوج کا ایک ایسا اعلیٰ افسر تھا، جو شامی فوج کو چھوڑ کر اپوزیشن باغیوں کے ساتھ مل گیا تھا۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ الصادق احرارالشام کا ’چیف آف سٹاف‘ بننے سے پہلے اس اسلام پسند گروہ کے کئی دیگر شعبوں میں بہت اہم ذمے داریاں انجام دے چکا تھا۔
ماہرین کے مطابق احرارالشام کو خانہ جنگی کے شکار اس ملک میں اسلام پسند باغیوں کے سب سے طاقت ور گروپوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس گروپ کی بنیاد 2011ء میں رکھی گئی تھی اور اسے مالی وسائل ترکی اور خلیجی عرب ریاستوں کی طرف سے مہیا کیے جاتے ہیں۔
احرارالشام مختلف جنگجو گروپوں کے ’جندالفتح‘ نامی اس باغی اتحاد میں شامل سب سے بڑا مسلح گروہ بھی ہے، جسے شمال مغربی شام کے صوبے ادلب پر کنٹرول حاصل ہے۔ ادلب پر قبضے میں احرارالشام کو دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے تعلق رکھنے والی عسکریت پسند تنظیم النصرہ فرنٹ کی مدد بھی حاصل ہے۔