اسلام کا تشخص مسلمان خود ٹھیک کریں، ایرانی صدر
27 دسمبر 2015بین الاقوامی کانفرنس برائے اسلامک یونٹی یا نظم اسلامی پر عالمی اجتماع سے خطاب میں ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا، ’’آج کے دور میں ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ دنیا کی نظروں میں اسلام کے تشخص کو درست کریں۔‘‘
ایران کے سرکاری ٹی وی چینل پر براہ راست نشر کیے گئے اس خطاب میں روحانی کا کہنا تھا، ’’کیا ہم نے کبھی سوچا کہ دشمنوں کی بجائے، خود مسلم دنیا میں اسلام کی زبان بولنے والے ایک چھوٹے سے گروہ نے مذہب کو قتل، تشدد، عقوبت، بربریت اور ناانصافی کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کسی اعلیٰ ایرانی رہنما کی جانب سے ایسا بیان نہایت غیرعمومی ہے، کیوں کہ ایران خود کو اسلامی دنیا کے ایک قائد کے طور پر پیش کرتا ہے۔
روحانی جو خود اعتدال پسند نظریات کے حامل ہیں، کاکہنا تھا، ’’اسلامی تعلیمات اور اصول، تشدد کے منافی ہیں اور اسلامک اسٹیٹ جیسے شدت پسند گروپ اپنی چھوٹی ذہنیت کے ذریعے اسلام کی تصویر بگاڑ کر پیش کر رہے ہیں۔‘‘
ایران خود شام، عراق اور یمنی تنازعات میں کردار ادا کر رہا ہے، تاہم روحانی نے مسلم ممالک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’شام، عراق اور یمن میں خون ریزی اور قتل عام پر خاموش ہیں۔‘‘
شام میں ایران صدر بشارالاسد کی حکومت کا قریبی اتحادی ہے، عراقی حکومت کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں، جب کہ تہران حکومت اسلامک اسٹیٹ اور دیگر سنی عسکری تنظمیوں کی کڑی مخالف ہے۔ یمن میں بھی حوثی باغیوں کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان باغیوں کے خلاف سعودی قیادت میں عرب ممالک نے ایک فوجی اتحاد قائم کر رکھا ہے۔
ایرانی صدر نے اپنے خطاب میں سعودی عرب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریاض حکومت مسلح تنازعات کو ہوا دے کر غربت اور دہشت گردی میں اضافہ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یمنی باغیوں کے خلاف فضائی بمباری اور شامی صدر بشارالاسد کے مخالفین کی مدد کر کے سعودی عرب غربت اور دہشت گردی میں اضافے کا موجب ہوا ہے۔
تہران میں اس کانفرنس سے خطاب میں روحانی نے مزید کہا کہ سعودی عرب کو اس بات کا جواب دینا چاہیے کہ شام کو کمزور کر کے ہمسایہ ممالک کو کیسے فائدہ ہو سکتا ہے؟ ’’کیا شام کی تباہی ترکی، اردن، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات یا دیگر ممالک کی مضبوطی کا سبب بنے گی؟ شام کی تباہی پر اسرائیل کے علاوہ کون خوش ہو سکتا ہے؟‘‘
انہوں نے براہ راست ریاض حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’آپ نے کتنے بم اور کتنے میزائل امریکا سے خریدے ہیں۔ اگر یہ پیسے غریب مسلمانوں میں بانٹے جاتے تو آج ان میں سے کوئی بھوکے پیٹ نہ سوتا۔‘‘