جرمنی میں مہاجرین اور اسلام مخالف عوامیت پسند سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے ایک سیاست دان نے اسلام قبول کرنے کے بعد اے ایف ڈی کی نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
اشتہار
جرمنی کی دائیں بازو کی عوامیت پسند اور اسلام اور مہاجرین مخالف سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) سے تعلق رکھنے والے ایک سیاست دان نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ جرمن انتخابات میں اے ایف ڈی تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آئی تھی۔
جرمنی میں اسلام اور مہاجرین مخالف بیانیے کی بنیاد پر سیاست کرنے والی اس عوامیت پسند جماعت اے ایف ڈی نے اپنی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اور اہم سیاست دان آرتھر واگنر کے اسلام قبول کرنے کی تصدیق کی ہے۔ مسلمان اور اسلام مخالف سیاست کرنے والے واگنر نے مسلمان ہونے کے بعد اس جماعت میں اپنے عہدے سے استعفیٰ بھی دے دیا ہے۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
آرتھر واگنر کا تعلق وفاقی جرمن ریاست برانڈنبرگ سے ہے۔ اے ایف ڈی کے ترجمان ڈینیئل فریزے نے واگنر کے اسلام قبول کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی جماعت کو اُن کے اسلام قبول کرنے سے کوئی مسئلہ نہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اے ایف ڈی میں مسیحیوں اور مسلمانوں کے علاوہ ہم جنس پرستوں کی نمائندگی بھی ہے اور یہ جماعت ان سب طبقوں کے مفادات کو پیش نظر رکھتی ہے۔
آرتھر واگنر سن 2015 میں مہاجرین اور اسلام مخالف جماعت میں شامل ہوئے تھے اور پارٹی کی صوبائی کمیٹی میں انہیں چرچ اور مذہبی امور کا نگران مقرر کیا گیا تھا۔ واگنر روسی نژاد جرمن شہری ہیں اور اے ایف ڈی میں شمولیت سے قبل وہ چانسلر انگیلا میرکل کی سایسی جماعت سی ڈی یو کے پلیٹ فارم سے سیاست کر رہے تھے۔
رواں برس گیارہ جنوری کے روز انہوں نے اے ایف ڈی کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر کمیٹی کے رکن کے طور پر کام نہیں کریں گے۔ ایک مقامی جرمن اخبار نے ان سے اسلام قبول کیے جانے کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ’’یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے اس بات کی تردید بھی کی کہ اے ایف ڈی نے انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔
سن 2015 میں یورپ میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد اے ایف ڈی کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ زیادہ تر مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے ایک ملین سے زیادہ مہاجرین اور تارکین وطن کی جرمنی آمد کے بعد اس جماعت کا کہنا تھا کہ جرمنی میں ’اسلامائزیشن‘ کا خطرہ ہے اور حکومت کو ملکی سرحدوں کی نگرانی سخت کر دینا چاہیے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ آرتھر واگنر ایسے پہلے سیاست دان نہیں ہیں جو اسلام مخالف سیاست کرتے کرتے خود بھی مسلمان ہو گئے۔ اس سے پہلے ہالینڈ کی مسلمان مخالف سیاسی جماعت فریڈم پارٹی سے تعلق رکھنے والے آرنوڈ فان ڈورن نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا جس کے بعد انہیں ان کی جماعت سے نکال دیا گیا تھا۔
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟